’صرف مہاجرین کے بحران پر ہی توجہ مرکوز نہ کی جائے‘
عاطف بلوچ30 اپریل 2016
یورپی یونین کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ مہاجرین کا بحران پہلی ’عالمی انسان دوست سمٹ‘ پرحاوی نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ یوں دیگر کئی اہم مسائل سے توجہ ہٹ جائے گی۔
اشتہار
’ورلڈ ہیومنٹیرین سمٹ‘ (عالمی انسان دوست سمٹ) متوقع طور پر تیئس تا چوبیس مئی کو ترک شہر استنبول میں منعقد کی جائے گی، جس میں متعدد ممالک سے تعلق رکھنے والے حکومتی اور سول سوسائٹی کے پانچ ہزار سفارتکار شریک ہوں گے۔
اس عالمی سمٹ کا مقصد مسائل کے حل کے لیے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ عالمی مندوبین کی کوشش ہو گی کہ وہ اس سمٹ میں ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی پر متفق ہو جائیں۔
یہ سمٹ ایک ایسے وقت پر منعقد کی جا رہی ہے جب یورپ کو مہاجرین کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے ایک نیا انسانی بحران بھی پیدا ہو چکا ہے۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین اس حوالے سے طے ہونے والے ایک متنازعہ معاہدے کی وجہ سے ان مہاجرین اور تارکین وطن کی یورپ آمد کے سلسلے کو تو روکنے میں مدد ملی ہے لیکن ساتھ ہی یونان میں جمع ہونے والے مہاجرین کے باعث وہاں یہ بحران انتہائی شدید ہو چکا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین یونان میں محصور ہو گئے ہیں جب کہ وہاں مہاجر کیمپوں کی صورت حال بھی انتہائی ابتر ہوتی جا رہی ہے۔
اس صورتحال کے باوجود یورپی یونین کے اقوام متحدہ کے لیے سفیر Joao Vale de Almeida نے کہا ہے کہ اگر ’ورلڈ ہیومنٹیرین سمٹ‘ کے دوران مہاجرین کے بحران کا ایجنڈا حاوی ہو گیا تو دیگر اہم مسائل نظر انداز ہو جائیں گے۔
نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سمٹ بنیادی طور پر انسانی المیوں کے حل کے لیے ایکشن، امداد پہنچانے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے عالمی اتفاق رائے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ سمٹ صرف مہاجرین یا تارکین وطن کے بحران کے حل کی خاطر نہیں ہے۔‘‘
بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کے سربراہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دیگر کئی اہم اور حل طلب مسائل کے بجائے یہ سمٹ صرف مہاجرین کے بحران پر فوکس کیے جانے کا اندیشہ موجود ہے۔ سابق برطانوی وزیر خارجہ ملی بینڈ نے کہا، ’’میرے خیال میں یہ انتہائی اہم ہے کہ اس سمٹ کو یورپ اور مشرق وسطیٰ کی سمٹ کے طور پر نہ دیکھا جائے۔‘‘
ڈیوڈ ملی بینڈ کے بقول اگر عالمی انسان دوست سمٹ میں صرف یورپ اور مشرق وسطیٰ پر ہی دھیان مرکوز رکھا گیا تو افریقہ، جنوب ایشیائی اور مشرق بعید کے بہت سے ایسے ممالک سے توجہ ہٹ جائے گی، جہاں مہاجرت کا بحران انتہائی توجہ طلب ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے گزشتہ برس دسمبر کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں زبردستی بے گھر کر دیے جانے والے افراد کی تعداد ساٹھ ملین تک پہنچ چکی ہے۔
اس کے علاوہ شامی خانہ جنگی، افغانستان کا بحران اور ڈیموکریٹک ری پبلک کانگو، صومالیہ، عراق، جنوبی سوڈان اور دیگر متعدد ممالک میں سکیورٹی کی ابتر ہوتی ہوئی صورت حال نے بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
’ورلڈ ہیومنٹیرین سمٹ‘ (عالمی انسان دوست سمٹ) میں عالمی مندوبین اس بارے میں بھی غور کریں گے کہ ان بحرانوں کے لیے ملنے والے فنڈز کو زیادہ مناسب طریقے سے کیسے خرچ کیا جا سکتا ہے۔ Vale de Almeida کے بقول، ’’اس امداد کو بہتر انداز میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانی المیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ستّر برس بعد پہلی مرتبہ ’ورلڈ ہیومنٹیرین سمٹ‘ کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ایک عالمی حکمت عملی ترتیب دی جا سکے۔