صنعاء میں اسلامی ثقافت کے ’جھومر‘ پر سعودی بمباری
12 جون 2015یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے، جب یمنی تنازعے کے مختلف فریق اتوار 14 جون سے اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنیوا میں آپس میں مذاکرات شروع کرنے والے ہیں۔ ان مذاکرت کو سعودی قیادت میں دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری فضائی حملوں کے بعد پیدا ہونے والے تعطل کو دور کرنے کی جانب پہلی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض حکومت کی سرکردگی میں سرگرمِ عمل اتحادی افواج نے صنعاء کے قدیم حصے پر فضائی حملہ کرنے کی رپورٹوں کی تردید کرتے ہوئے قیاس آرائی کی ہے کہ ممکنہ طور پر باغیوں کا اپنا ہی کوئی اسلحے کا ڈپو دھماکے سے پھٹ گیا ہو گا۔ اتحادی افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل احمد الاسیری کے مطابق اُنہیں ان مقامات کی تاریخی اہمیت کا اچھی طرح سے اندازہ ہے ا ور وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان مقامات پر بمباری نہیں کی گئی۔ الاسیری نے یہ بھی بتایا کہ جمعے کو سعودی عرب کی سرحد پر واقع ایک مسجد کو نماز کے اوقات کے دوران یمن سے راکٹوں کا نشانہ بنایا ، جن کی زَد میں آ کر دو شہری ہلاک ہو گئے۔
صنعاء شہر کا قدیم حصہ گزشتہ ڈہائی ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے آباد چلا آ رہا ہے۔ اس قدیم صنعاء میں ایک سو سے زیادہ مساجد ہیں، چَودہ عوامی حمام ہیں اور چھ ہزار سے زائد ایسے مکانات ہیں، جو گیارہویں صدی عیسوی سے پہلے تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ قدیم صنعاء دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا بھی ایک اہم مرکز رہا ہے اور اقوام متحدہ کے تعلیم و تربیت، سائنس اور ثقافت کے ادارے یونیسکو نے اسے 1986ء میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
صنعاء کے شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر کے قدیم حصے پر یہ حملہ جمعے کو علی الصبح کیا گیا اور یہ کہ مارچ میں ایران نواز شیعہ باغیوں کے خلاف فضائی بمباری کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے یہ صنکاء شہر کے اس حصے پر پہلا براہِ راست حملہ تھا۔
ڈاکٹروں اور عینی شاہدین کے مطابق ایک میزائل قاسمی نامی علاقے میں جا کر گرا، جو پھٹ نہیں سکا تاہم اُس کی زَد میں آ کر تین تین منزلہ مکانات تباہ ہو گئے اور ایک خاتون اور ایک بجے سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک شہری احمد الامیری نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا:’’ہم نے ایک طیارے سے میزائل چھوڑے جانے کی تیز روشنی دیکھی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ یہ پھٹے گا لیکن ایسا نہیں ہوا... ہم نے اس میزائل کے گرنے کی شدت کو محسوس کیا۔‘‘
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنول ایرینا بوکووا نے کہا کہ جانی نقصان پر بھی اور ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کے قدیم ترین شہری منظرناموں میں سے ایک کی تباہی پر بھی اُنہیں شدید دکھ ہوا ہے۔ ایرینا بوکووا نے کہا کہ اُنہیں وہ تصاویر دیکھ کر دھچکا لگا ہے، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے ان کئی منزلہ قدیم کئی منزلہ مینار نما عمارتوں اور خوبصورت باغات کو آن کی آن میں راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اُنہوں نے کہا:’’ان مقامات کی تاریخی قدر و قیمت اور ان سے جڑی یادوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے یا وہ تباہ ہو گئی ہیں۔ یہ واقعہ اس خطّے میں انسانی ابتلا میں اضافہ کر دے گا اور مَیں ایک بار پھر تنازعے کے فریقوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ یمن میں ثقافتی ورثے کا احترام کریں اور اُس کا تحفظ کریں۔‘‘
یمن کے تاریخی مقامات کے تحفظ سے متعلق ادارے کے سربراہ ناجی صالح ثوابہ نے بھی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ان مقامات کی تباہی کی مذمت کی اور کہا:’’مَیں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کبھی ان مقامات کو بھی ہدف بنایا جا ئے گا۔ خواہ وہاں دشمن کے ٹھکانے ہی کیوں نہ ہوتے، انہیں کبھی بھی فضائی حملوں کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔‘‘
ماہِ رواں کے آغاز میں بھی یونیسکو نے ماریب کے قدیم ڈیم پر فضائی حملوں کی مذمت کی تھی، جسے پہلی مرتبہ آٹھویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ وہ شہر ہے، جو کبھی ملکہ صبا کی سلطنت کا دارالخلافہ ہوا کرتا تھا۔ یونیسکو کے مطابق اِس ڈیم پر حملے سے ایک ہفتہ قبل وسطی یمن میں واقع ایک قومی عجائب گھر کو بھی ’مکمل طور پر تباہ‘ کر دیا گیا تھا۔