1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صوبہٴ سندھ میں 14 سال سے کم عمر کے بچوں کی ملازمت پر پابندی

علی کیفی تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
27 جنوری 2017

پاکستان میں کئی ملین بچے اینٹوں کے بھٹوں سے لے کر قالین بافی کی صنعت تک مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں تاہم اب چائلڈ لیبر کو محدود کرنے کے لیے صوبہٴ سندھ میں چَودہ سال سے کم عمر کے بچوں کی ملازمت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

Pakistan Islamabad Kinderarbeit Straßenverkäufer Junge Titel
تصویر: DW/I. Jabeen

اس طرح صوبہٴ سندھ ملک کا وہ تیسرا صوبہ بن گیا ہے، جہاں چائلڈ لیبر یا بچوں سے محنت مزدوری کروانے کے رجحان کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی ایسی ہی قانون سازی کی جا چکی ہے جبکہ اب صرف ایک صوبہ بلوچستان ایسا رہ گیا ہے، جہاں بچوں سے محنت مشقت لیے جانے کے سلسلے میں ابھی کسی قسم کا کوئی قانون متعارف نہیں کروایا گیا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں لاکھوں بچے کاشتکاری اور کان کنی جیسے شعبوں میں بھی کام کر رہے ہیں۔

پاکستان سے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں وقار مصطفیٰ نے لکھا ہے کہ صوبہٴ سندھ میں بچوں کی ملازمتوں کے حوالے سے جو نیا قانون جمعرات چھبیس جنوری سے نافذ العمل ہو چکا ہے، اُس کے تحت خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو چھ ماہ تک کی سزائے قید اور پچاس ہزار روپے تک جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ مزید یہ کہ جن واقعات میں بچوں سے زیادہ خطرناک کام کروائے جائیں گے  اور اُنہیں جسم فروشی، فحش تصاویر اُتروانے یا غلامی وغیرہ پر مجبور کیا جائے گا، وہاں یہ سزائیں اور بھی زیادہ سخت ہوں گی۔

پاکستان بھر میں ایک کروڑ پچیس لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے محنت مشقت کر رہے ہیںتصویر: DW/I. Jabeen

یہ مسودہٴ قانون سندھ کے سینیئر وزیر نثار کھوڑو نے متعارف کروایا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ’’ابتر سماجی اور اقتصادی حالات کے باعث چَودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو فیکٹریوں، کارخانوں، کھیتوں اور دیگر خطرناک شعبوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اِس قانون کا مقصد استحصال کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔‘‘

بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک مقامی تنظیم ’چائلڈ رائٹس موومنٹ‘ کے مطابق پاکستان بھر میں ایک کروڑ پچیس لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے محنت مشقت کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ان میں سے بہت سے بچے غربت کا شکار ہونے کی وجہ سے کام کاج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

پاکستان میں افرادی قوت کے حوالے سے دو ہزار چَودہ اور پندرہ میں کروائے جانے والے ایک سروے سے پتہ چلا تھا کہ دَس سے لے کر چَودہ سال تک کی عمر کے جو بچے کام کاج سے وابستہ ہیں، اُن میں سے اکسٹھ فیصد لڑکے تھے، جن کی اٹھاسی فیصد تعداد دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی تھی۔

اور لڑکیاں؟

لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم ’دستک‘ کی ڈائریکٹر صبا شیخ نے سندھ میں متعارف کروائے جانے والے قانون پر اس حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ اس میں گھروں کے اندر کام کو بچوں کے لیے خطرناک کام قرار نہیں دیا گیا۔

تعلیم کی بجائے کام کاج کرنے والے پاکستانی بچوں میں لڑکیوں کی نسبت لڑکے زیادہ ہیں تاہم بہت سی لڑکیاں گھروں میں خادماؤں کے طور پر بھی کام کرتی ہیںتصویر: DW/I. Jabeen

صبا شیخ نے اس سلسلے میں تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا: ’’ہم نے ایسے کئی واقعات دیکھے ہیں، جن میں گھوں میں کام کرنے والے بچوں کو تواتر کے ساتھ مارا پیٹا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے، جس کی کسی طرح کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے 2015ء میں غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے اتفاقِ رائے سے سن 2025ء  کے لیے یہ ہدف مقرر کیا تھا کہ تب تک دُنیا بھر میں چائلڈ لیبر یا بچوں سے محنت مشقت کروانے کی تمام صورتوں کو ختم کر دیا جائے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں