1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صوبہ سرحد کے ایک مہاجر کیمپ کا احوال

فرید اللہ خان، پشاور18 دسمبر 2008

پاکستانی صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں باجوڈ، سوات اور مہمند ایجنسی میں سیکیوریٹی فورسز کے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے لاکھوں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں

صوبائی حکومت اور غیر سرکاری اداروں نے متاثرین کے لئے مردان، نوشہرہ اور دیر میں امدادی کیمپ قائم کئے ہیں تاہم سب سے بڑا کیمپ پشاور کے علاقے کچی گڑھی میں بنایا گیا ہےتصویر: AP

صرف باجوڈ ایجنسی سے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ صوبائی حکومت اور غیر سرکاری اداروں نے متاثرین کے لئے مردان، نوشہرہ اور دیر میں امدادی کیمپ قائم کئے ہیں تاہم سب سے بڑا کیمپ پشاور کے علاقے کچی گڑھی میں بنایا گیا ہے جہاں اب تک دس ہزار سے زائد خاندانوں کو عالمی اداروں کے تعاون سے رجسٹرڈ کیا جا چکا ہے۔

کیمپ میں خراب اور نا پختہ انتظامات کی وجہ سے شدید سردی کے موسم میں بچوں کو کھانسی اور بخار جیسی بیماریوں نے گھیر رکھا ہےتصویر: AP

اگرچہ حکومت نے ان متاثرین کی تمام مشکلات حل کرنے کے دعوے کئے ہیں تاہم جہاں ان خاندانوں کی رجسٹریشن میں مسائل سامنے آئے وہاں ان کی امدادی اشیاء کی تقسیم کے دوران منتظمین اور متاثر کے مابین تلخ کلامی بھی روز کا معمول بن چکی ہے۔

متاثرین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انہیں یہاں غیرصحت بخش اشیاء خوراک کی وجہ سے بیماریوں کا بھی سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیمپ میں مہیا کی جانے والی ناقص اشیاء میں آٹا اوردالیں سر فہرست ہیں۔

متاثرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ کیمپ میں خراب اور نا پختہ انتظامات کی وجہ سے شدید سردی کے موسم میں بچوں کو کھانسی اور بخار جیسی بیماریوں نے گھیر رکھا ہے اور سردی سے بچاؤ کے لئے موثر انتظامات نہیں کئے جا رہے۔

متاثرین نے اصرار کیا کہ جلد از جلد ان کے علاقوں میں امن قائم کیا جائے تاکہ وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں