1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صولت مرزا کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا

رفعت سعید، کراچی12 مئی 2015

منیجنگ ڈائریکٹر کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن شاہد حامد کو قتل کرنے والے مجرم صولت علی خان عرف صولت مرزا کو بلاآخر سزا سنائے جانے کے سولہ سال بعد تختہ دار پرچڑھا دیا گیا۔

تصویر: DW/R. Saeed

ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد کو 1997 کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ان کی رہائش گاہ کے قریب ان کے ایک محافظ اور ڈرائیور سمیت قتل کردیا گیا تھا اور 1999 کو بنکاک سے کراچی آنے والے صولت مرزا کو اس واردات میں ملوث ہونے کے الزام میں ائیر پورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ صولت مرزا نے گرفتاری کے بعد ہی اعتراف کرلیا تھا کہ اس نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے کہنے پر شاہد حامد کو قتل کیا ہے۔ اور پولیس کو عدالت میں بھی صولت کو مجرم ثابت کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا مگر سزا کے خلاف اپیلوں اور سیاسی دباؤ کے باعث موت کی سزا پر عمل درآمد ٹلتا رہا۔

پشاور میں آرمی اسکول پر حملے کے بعد جب حکومت پاکستان نے سزائے موت پر دوبارہ عمل درآمد شروع کیا تو اسی وقت خدشات پیدا ہونے لگے تھے کہ صولت مرزا کی سزا پر عمل درآمد حکومت کے لیےکسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ مگر حکومت نے ان خدشات کو غلط ثابت کرتے ہوئے صولت مرزاکو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ کیا اور پہلی بار اس کام کو سرانجام دینے کے لیے 19 مارچ کی تاریخ کو صبح ساڑھے پانچ بجے کا وقت مقرر کیا گیا۔

مگر منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہوا اور 11 مارچ کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے میں کئی اہم مقدمات میں مطلوب ملزمان کی گرفتاری سے پاکستان کی سیاست میں بھونچال آگیا۔ انیس مارچ کو پھانسی سے صرف چند گھنٹے قبل چند نجی ٹی وی چینلیز کو صولت مرزا کا ویڈیو بیان فراہم کیا گیا، جس میں مجرم نے الطاف حسین، ندیم نصرت، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان، سینیٹر بابر غوری اور حیدر عباس رضوی پر سنگین الزامات کی بارش کر دی۔

شاہد حامد کے قتل کا حکم الطاف حسین نے دیا ایک ایسا الزام تھا کہ جس کی تحقیقات کے لیے حکومت کو صولت مرزاکی سزا مؤخر کرنا پڑی۔

سینئر صحافی کاشف فاروقی کہتے ہیں کہ اگر صولت کے بیان کے بعد سزا موخر کرنے کی بجائے اسے پھانسی دے دی جاتی تو اس بیان کی حقیقت کو دنیا میں کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا کیوں کہ وہ ایک ایسے شخص کو بیان ہوتا، جو موت کے بہت قریب تھا اور ایسی حالت میں انسان صرف سچ ہی بولتا ہے مگر حکومت نے سزا مؤخر کرکے وہ کام کیا جو بیان ٹی وی چینلز کو لیک کرنے والے چاہتے تھے۔

اپنے ایک حالیہ پیغام میں صولت مرزا نے ایم کیو ایم کے متعدد رہنماؤں پر سنگین الزامات عائد کیے تھےتصویر: YouTube

صولت کی سزا پر عمل درآمد کے لیے دوسری بار 30 اپریل کی تاریخ مقرر ہوئی جسے تیس دن کیلئے موخر کردیا گیا کیونکہ وڈیو بیان کی تحقیق کرنا مقصود تھا۔ کراچی سے سینئیر پولیس افسران کی ایک ٹیم مچھ بھیجی گئی جس نے 7 گھنٹے تک صولت مرزا سے اس کے بیان کے متعلق مزید چھان بین کی اور واپس آکر رپورٹ ارسال کردی۔

تجزیہ کاروں کی آراء میں دوسری مرتبہ صولت مرز کی پھانسی ملتوی ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کیوں کہ اس نے اپنے بیان میں جن افراد پر جس انداز سے الزامات لگائے تھے ان کی تحقیقات ہونا تو ضروری تھا۔

تیسری بار پھانسی کی تاریخ 12 مئی اور وقت صبح ساڑھے چار بجے طے ہوا مگر اس سے قبل ہی صولت مرزا کی اہلیہ نگہت مرزا بھی شوہر کی زندگی بچانے کے لیے سرگرم ہوگئی اور میڈیا کا سہارا لیا۔ شوہر کا بھرپور دفاع کیا اورکھل کر ایم کیو ایم پر الزامات لگائے اور اعلٰی ترین عدالتوں میں گئیں۔ سندھ ہائی کورٹ سے مقدمہ کی سماعت دوبارہ کیے جانے کی درخواست مسترد ہونے کے باوجود نگہت مرزا بہت پرامید تھیں کہ وہ اپنے سہاگ کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

دوسری جانب ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صولت مرزا کو 1998 میں مجرمانہ سرگرمیوں کے باعث پارٹی سے نکال دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اس کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صولت مرزا کو جان بخشی کا لالچ دینے والوں نے ایم کیو ایم کے خلاف بیان دلوایا ہے۔ اور یہ ایم کیو ایم کے میڈیا ٹرائل کا حصہ ہے۔

انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک صولت مرزا سے پہلے سزائے موت کے کسی مجرم کو ڈیتھ سیل سے ویڈیو بیان جیسی سہولت فراہم نہیں کی گئی کہ تو پھر صولت پر یہ مہربانی کیوں؟

مبصرین کے خیال میں صولت مرزا سے پیچھا چھڑانا ایم کیو ایم کے لیے اتنا بھی آسان نہیں ہوا۔ ثبوت موجود ہیں کہ ایم کیو ایم کے متعدد رہنما جیل میں صولت سے ملنے جاتے تھے، جیل میں منعقد ہونے والے ایم کیو ایم کے پروگرامز میں صولت پیش پیش ہوتا تھا اور اس نے مچھ منتقل کیے جانے سے قبل تک سینٹرل جیل کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی سرپرستی کی ہے۔

صولت مرزا کو پھانسی دی جاچکی ہے، میت کو دوپہر میں طیارے کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی لایا گیا۔ گلشن معمار میں صولت مرزا کے گھر کے اطراف پہلے ہی پولیس اہلکارتعینات تھے، جہاں نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں ایم کیو ایم کے کسی رہنما نے شرکت نہیں کی۔

لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوگا۔صولت مرزا کے بیان میں نامزد گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد سے بھی پارٹی قائد الطاف حسین نے اظہارلاتعلقی کرلیا جب کہ ایم کیوایم کی طرف سے گورنرسندھ سے استعفی کا مطالبہ بھی سامنے آچکا ہے، بابر غوری فی الحال تو بیرون ملک ہیں مگر جے آئی ٹی رپورٹ وزارت داخلہ کو موصول ہوچکی ہے جب کہ دوسری طرف یہ پھانسی ایم کیو ایم کے اندر بھی کئی نئی دراڑوں کا سبب بنے گی۔ خصوصاٰ گرفتار کارکن سوچنے پر مجبور ہوں گےکہ سزا کی صورت میں پارٹی کا ردعمل ان کی توقع سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں