صوماليہ ميں قحط اور بھوک، صورتحال نازک
20 جنوری 2012صوماليہ ميں خشک سالی اور قحط کا بحران شدید تر ہو چکا ہے۔ انسانی بنيادوں پر امداد کے حوالے سے اقوام متحدہ کے رابطہ افسر مارک باؤڈن (Mark Bowden) کا کہنا ہے کہ پچھلے سال خاصی پيش رفت کے باوجود اب بھی ڈھائی لاکھ صومالی بھوک کے ہاتھوں موت کے خطرے سے دوچار ہيں: ’’صورتحال نازک ہے۔ چاليس لاکھ انسانوں کو ايک نہ ايک شکل ميں انسانی بنياد پر امداد کی ضرورت ہے۔‘‘
اس ليے اقوام متحدہ نے ايک نئی امدادی اپيل جاری کی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ صوماليہ ميں مستقل طور پر جاری تباہ کن صورتحال پر قابو پانے کے ليے 1.5 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ملک ميں بارش کی کمی، خراب فصل اور مويشيوں کی غير معمولی حد تک زيادہ اموات نے مسائل ميں اور زيادہ اضافہ کر ديا ہے۔ پچھلے سال کھانے پينے کی اشيا کی قيمتيں 200 فيصد بڑھ گئيں۔
ليکن پيش رفت بھی ہوئی ہے۔ تين صوبوں ميں اب بھوک پر قابو پا ليا گيا ہے۔ 26 لاکھ افراد کو کھانے پينے کی چيزيں فراہم کی گئی ہيں۔ 12 لاکھ افراد کو اب پينے کا صاف پانی دستياب ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود مسائل اب بھی بہت سنگين ہيں۔ باؤڈن نے کہا: ’’ہميں کھانے پينے کی اشيا تک رسائی کو يقينی بنانا ہو گا۔ بحران صوماليہ ميں دوسری فصل سے پہلے ختم نہيں ہو گا جس کی توقع ہميں اگست ميں ہے۔‘‘
نقل مکانی کرنے والوں کی حالت بھی اچھی نہيں ہے۔ دارالحکومت موگاديشو ميں دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کی تعداد تقریباﹰ ايک لاکھ 85 ہزار ہے۔ اُن کا انحصار مکمل طور پر باہر سے آنے والی امداد پر ہے۔
صوماليہ ميں لڑائی کی وجہ سے بھی امدادی کاموں پر اثر پڑ رہا ہے۔’ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نامی امدادی تنظيم نے اپنے دو کارکنوں کے قتل کے بعد موگاديشو کے بعض علاقوں ميں کام بند کر ديا ہے۔ ريڈ کراس نے مقامی حکام کی جانب سے 140 ٹرک روکے جانے کے بعد جنوب کو کھانے پينے کی اشيا بھيجنے کا سلسلہ روک ديا ہے۔ کينيا نے فضائی حملوں ميں اضافہ کرديا ہے۔
رپورٹ: ہانس يُرگن ماؤرُس، جنيوا / شہاب احمد صديقی
ادارت: نديم گِل