1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالیہ، الشباب کے ایک اہم رہنما نے خود کو حکومت کے حوالے کر دیا

عاطف بلوچ28 دسمبر 2014

جنگجو گروپ الشباب کے ایک انتہائی مطلوب کمانڈر زکریا اسماعیل احمد ہِرسی نے خود کو مقامی سیکورٹی فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔ تاہم الشباب کا کہنا ہے کہ زکریا دو برس قبل ہی انہیں چھوڑ چکا تھا، اس لیے اس کی گرفتاری بے معنی ہے۔

تصویر: picture alliance/AP Photo/Sheikh Nor

خبر رساں ادارے روئٹرز نے موغا دیشو سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ انتہا پسند گروہ الشباب کے کمانڈر زکریا نے ہفتے کے دن خود کو پولیس کے حوالے کیا۔ صومالی حکومت اور مقامی میڈیا نے ان خبروں کی تصدیق کر دی ہے جبکہ الشباب کے مطابق زکریا دو برس قبل ہی انہیں چھوڑ چکا تھا۔

امریکا نے زکریا کے سر کی قیمت تین ملین ڈالر رکھی ہوئی تھی۔ اگر یہ خبریں درست ہیں تو یہ پیشرفت الشباب کے لیے دوسرا بڑا دھچکا ہو گا کیونکہ ابھی کچھ ماہ قبل ہی اس شدت پسند گروہ کا مرکزی رہنما احمد عبدی جودان ایک امریکی ڈورن حملہ میں مارا گیا تھا۔ امریکی حکومت نے 2012ء میں ان دونوں کے سمیت مجموعی طور پر سات افراد کے بارے مخبری کرنے والے کے لیے کل 33 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔

افریقی یونین کی امن فوج اور صومالی نیشنل آرمی کی مشترکہ کارروائیوں کے نتیجے میں رواں برس ان جنگجوؤں کو متعدد محاذوں پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہےتصویر: picture alliance/dpa/Jones

صومالی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’الشباب کے رہنما زکریا اسماعیل نے جوبا الوسطی کے علاقے الوَق میں خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اسے کل (اتوار کے دن) بذریعہ ہوائی جہاز موغا دیشو پہنچا دیا جائے گا۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس اہم کمانڈر نے خود کو سکیورٹی فورسز کے حوالے کیوں کیا۔

ادھر سرکاری ریڈیو کی ویب سائٹ پر بھی زکریا کے سرینڈر کی خبر نشر کی گئی ہے۔ ریڈیو موغادیشو کے مطابق زکریا الشباب نامی شدت پسند تنظیم کے مالیاتی امور کا جنرل سیکرٹری تھا۔ سرکاری ریڈیو نے زکریا کی خود حوالگی کے محرکات نہیں بتائیں ہیں۔

ادھر الشباب کی ایک ترجمان نے ٹیلی فون کے ذریعے روئٹرز کو بتایا کہ زکریا الشباب کو حصہ نہیں رہا تھا اور اب حکومت ان خبروں کو پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہرسی کا کوئی اثرورسوخ نہیں ہے کیونکہ وہ الشباب کا رکن نہیں ہے۔‘‘

یہ امر اہم ہے کہ صومالی حکومت نے اس اسلام پسند بغاوت کو روکنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائیں ہیں، جن میں ایسی پیشکش بھی شامل ہے کہ جو جنگجو خود کو سیکورٹی فورسز کے حوالے کرے گا، اسے عام معافی دے دی جائے گی۔ تاہم ابھی تک کوئی بھی جنگجو اس پیشکش سے متاثر نہیں ہوا تھا۔

القاعدہ نیٹ ورک سے منسلک الشباب نامی گروہ کی کوشش ہے کہ وہ مغرب نواز حکومت کا تختہ الٹ کرصومالیہ میں سخت شرعی قوانین نافذ کر دے۔ اگرچہ یہ جنگجو اب بھی جنوبی اور وسطی صومالیہ کے کچھ علاقوں پر قابض ہیں لیکن افریقی یونین کی امن فوج اور صومالی نیشنل آرمی کی مشترکہ کارروائیوں کے نتیجے میں رواں برس ان جنگجوؤں کو متعدد محاذوں پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس کے باوجود الشباب نہ صرف صومالیہ بلکہ ہمسایہ ملک کینیا میں بھی اپنی پر تشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران اس گروہ نے سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔ جمعرات کے دن ہی اس کے جنگجوؤں نے صومالی دارالحکومت موغا دیشیو میں افریقی یونین کے ایک فوجی اڈے پر حملہ کر دیا تھا، کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں متعدد افراد ہلاک بھی ہو گئے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں