صومالیہ: حکومتی فورسز اور الشباب کے درمیان لڑائی جاری
20 اگست 2009صومالی فوج نے مقامی شہریوں کی ملیشیا کی مدد سے ملک میں عسکریت پسندوں کے سب سے بڑے نیٹ ورک ’الشباب‘ کے ٹھکانوں پر بولو باردے کے علاقے میں حملہ کیا۔ مذکورہ علاقہ گزشتہ کئی عرصے سے الشباب عسکریت پسندوں کنٹرول میں تھا۔ الشباب صومالیہ کی وہ تنظیم ہے جس کے القاعدہ سے قریبی تعلقات بھی بتائے جاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق صومالی دستے اور اہل سنت والجماعت نامی روشن خیال تنطیم کے کارکنوں کی الشباب جنگجوؤں سے ملک کی جنوبی اور وسطی علاقوں میں لڑائی جاری ہے۔ صومالی صدر شریف احمد کی حمایتی ملیشیا نے اس ہفتے کے آغاز میں الشباب کے خلاف ملک کے جنوبی علاقوں میں کامیاب کارروائیاں کی تھیں اور الشباب کے دو مرکزی علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا تاہم جمعرات کے روز الشباب عسکریت پسندوں نے اپنے علاقوں کا کنٹرول واپس حاصل کرلیا ہے۔ الشباب کے ایک کمانڈر شیخ محمد ابراھیم نے دعویٰ کیا کہ آج ان کے ساتھیوں نے حکومتی فورسز کا حملہ پسپا کردیا ہے۔
صومالی فوج کے کرنل یوسف محمد کے مطابق بولو باردے کے مختلف حصوں میں ابھی تک لڑائی جاری ہے، جس میں 21 افراد مارے جاچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صومالی فورسزز کے اس حملے میں عسکریت پسندوں کو کافی زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ الشباب کے ترجمان شیخ عثمان نے الزام لگایا ہے کہ پڑوسی ملک ایتھیوپیا کی افواج اس آپریشن میں صومالی حکومت کی معاونت کر رہی ہیں۔ ایتھیوپیا کی حکومت نے اس الزام کو رد کردیا ہے۔
اسی دوران ایک اور صومالی عسکریت پسند تنظیم حزب الاسلام نے بھی اپنے ایک مرکزی علاقے لوُق کا کنٹرول حکومتی ملیشیا سے واپس چھین لیا ہے۔ لُوق پر حکومت نواز فورسزز نے کل قبضہ کیا تھا۔ صومالیہ میں گزشتہ دو سال کے سے جاری خانہ جنگی میں 18 ہزار شہری ہلاکتیں ہوچکی ہیں جبکہ ایک ملین سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
صومالی قانون سازوں نے کل بدھ کے روز ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد صومالی صدر کے پاس باغیوں سے نمٹنے کے لئے اور اس ضمن میں فوری فیصلے کرنے کے مکمل اختیارات مل گئے ہیں۔
رپورٹ: انعام حسن
ادارت: عاطف بلوچ