صومالیہ: دو کار بم دھماکوں میں کم از کم 100 افراد ہلاک
31 اکتوبر 2022
پولیس حکام نے بتایا کہ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں ہفتے کے روز ہونے والے دو بڑے دھماکوں سے پورا شہر لرز اٹھا۔ بعد میں حکام نے اطلاع دی کہ سرکاری دفاتر کے قریب ہونے والے دھماکوں میں کم از کم 100 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ تقریباً 300 افراد زخمی ہوئے۔
صومالیہ: انتہا پسند تنظیم الشباب کے سابق جنگجو وزیر بن گئے
اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ اتوار کے روز ملک کے صدر حسن شیخ محمد نے بم دھماکوں کو دیکھتے ہوئے عالمی برادری سے طبی امداد کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا، ''ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے طبی ڈاکٹروں کو یہاں بھیجیں کیونکہ ہم تمام متاثرین کو علاج کے لیے ملک سے باہر نہیں بھیج سکتے۔''
صومالیہ: اجلاس کے دوران پارلیمان پر مارٹر حملہ
حملے کے بارے میں مزید کیا معلومات ہیں؟
یہ بم دھماکے ضلع زوبی میں ہوئے اور ان میں وزارت تعلیم کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کپتان نور فرح نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''بم سے لیس دو کاریں وزارت تعلیم کی دیواروں سے ٹکرائئیں۔'' حکام کے مطابق وزارت خارجہ کا دفتر بھی اسی علاقے میں واقع ہے۔
نسوانی جنسی اعضاء کی قطع و برید، مصر میں سخت سزا کا نفاذ
قومی پولیس کے ترجمان صادق دودیش نے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ دھماکوں میں ''متعدد شہری ہلاک ہوئے۔'' ابتدائی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ اس میں کم از کم 10 افراد مارے گئے، جس میں معروف آزاد صحافی محمد عیسی کونا بھی شامل ہیں۔
القاعدہ سے منسلک اسلامی شدت پسند گروپ الشباب نے اپنے ریڈیو اسٹیشن اندلس پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس اعلان سے قبل ہی وزیر اعظم حمزہ عبدی بارے نے بھی اس کی ذمہ داری اسی شدت پسند گروپ پر عائد کی تھی۔
دہشت گرد گروپ الشباب موغادیشو اور صومالیہ کے دیگر علاقوں کو وقتاً فوقتا بم دھماکوں یا پھر بندوق کے حملوں سے نشانہ بناتا رہتا ہے۔ اس نے اپنے بیان میں کہا کہ وزارت ایک ''دشمن کی بنیاد'' ہے جسے غیر مسلم ممالک کی حمایت حاصل ہے اور یہ ''صومالیہ کے بچوں کو اسلامی عقیدے سے دور کرنے کے لیے پر عزم ہے۔''
شہر پر متعدد بار ہلاکت خیز حملے
ہفتے کے روز جس مقام کو دھماکوں سے نشانہ بنایا گیا، اسی کے آس پاس سن 2017 میں ایک تباہ کن ٹرک بم دھماکا ہوا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی الشباب نے قبول کی تھی، جس میں 500 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔
اس سے قبل اسی عسکریت پسند انتہا پسند گروپ سے وابستہ افراد نے سن 2015 میں بھی صومالیہ کی وزارت تعلیم پر حملہ کیا تھا۔
صومالی حکومت اور امریکہ نے مشترکہ طور پر الشباب کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ واشنگٹن نے اس گروپ کو القاعدہ کی طرح ہی مہلک ترین تنظیموں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ ادھر صومالی حکومت نے اس نئے آپریشن کو گروپ کے خلاف ''مکمل جنگ'' قرار دیا ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)