صومالیہ قدرتی اور انسانی آفات کی زد میں
18 جون 2008ان میں سے زیادہ تر لوگ گُزشتہ برس کسی ساز و سامان کے بغیر بمشکل اپنی جان بچا کر بھاگے تھے کیونکہ مسلم عسکریت پسندوں اور ایتھوپیا کی فوج کے درمیان سخت لڑائی چھڑ گئی تھی۔ پچھلے تین برسوں سے جاری خشک سالی نے پناہ گزینوں کا جینا اور محال کر دیا ہے۔ طویل انتظار کے بعد اب جب بارش آئی بھی تو اس قدر شدید کہ چند گھنٹوں میں ہی بارش کا پانی سیلاب کی شکل اختیار کر گیا۔ اور اس طرح لوگوں کا بچا کچھا سامان بھی سیلاب کی نذر ہو گیا۔
صومالیہ میں اقوام متحدہ کے امدادی کاموں کے منتظم مارک باوٴڈن نے بتایا: ''ہم نے کئی ہفتے قبل پلاسٹک شیٹس تقسیم کر دی تھیں لیکن تین برسوں کی خشک سالی کے باعث دریاوٴں کی مٹی خشک ہو چکی تھی اور تیز پانی کو اپنے اندر جذب نہ کر سکی۔ اس وجہ سے پانی سیلاب کی شکل اختیار کر گیا ۔ گُزشتہ ہفتے امدادی قافلے پر ڈاکووٴں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ہمارا ایک کارکن مارا گیا۔ پانی کا ریلا اتنا تیز تھا کہ پلاسٹک شیٹس کو بہا لے گیا۔ چھہ افراد ڈوب گئے جبکہ ہزاروں کے لئے اب سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں رہی۔''
باوٴڈن کے مطابق صومالیہ کے متاثرین کو فوری امدادی سامان درکار ہے۔ ''صومالیہ کی صورتحال ڈرامائی حد تک خراب ہو چکی ہے۔ اس وقت ہم تین ملین افراد کو امداد مہیا کر رہے ہیں۔ ہمارے اندازوں کے مطابق اگلے ماہ تک ایک ملین افراد کا اس میں اضافہ ہو چکا ہو گا۔ اس طرح صومالیہ کا ہر دوسرا شخص ہنگامی سطح پر ملنے والی امداد کا محتاج ہو چکا ہو گا۔''
اس افسوسناک صورتحال کی وجوہات سیلاب کے علاوہ اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور صومالیہ کی کرنسی کی قدروقیمت بھی ہیں۔ صومالوی کرنسی کی قدروقیمت گرتی ہی چلی جا رہی ہے۔ مزید براں امدادی تنظیموں کے لئے اس ملک میں کام کرنا خا صا مشکل ہے۔
اب تک کئی امدادی کارکن مارے جا چکے ہیں۔ متحارب گروپوں کے درمیان امن قائم کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
مسلم عسکریت پسندوں کا مطالبہ ہے کہ ایتھوپیا کی فوج غیر مشروط طور پر صومالیہ سے نکل جائے۔ عسکریت پسندوں کے خیال میں اس کے بعد ہی بحران زدہ صومالیہ میں امن قائم ہو سکتا ہے!