صومالیہ میں الشباب کا صدارتی محل پر حملہ
13 مارچ 2010اب تک حکومتی دستوں اور الشباب کے جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 60 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
صومالیہ میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے گروپوں کے مطابق افریقی یونین کی حمایت یافتہ حکومتی فورسز باغیوں کو پسپا کرنے کے لئے بھاری توپ خانے کا استعمال بھی کر رہی ہیں۔ دریں اثناء انسانی حقوق کی تنظیموں پر اس الزام کے بعد کہ ملک میں آنے والی امداد اور اشیائے خوراک شدت پسندوں میں تقسیم کی جا رہی ہیں، صومالیہ کی حکومت نے بہت سی غیر حکومتی تنظیموں کے خلاف تحقیقات کا اعلان کر دیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق الشباب سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند علی الصبح علاقے میں داخل ہوئے اور انہوں نے صدارتی محل کی طرف گولے پھینکنا شروع کر دئے۔ تازہ ترین کارروائی میں کم از کم چھ شہریوں کی ہلاکت جبکہ 23 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تین روز سے جاری اس لڑائی کے پہلے دو روز میں 54 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
گزشتہ 19 برسوں سے انتشار کے شکار اس ملک میں حکومتی عمل داری صرف دارالحکومت کے چند علاقوں تک ہی محدود ہے اور صومالیہ کے ہمسایہ ممالک اس افریقی ریاست کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ اور مشرقی افریقی ملکوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔
اس سے قبل ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں، جن میں کہا گیا تھا کہ صومالیہ میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں امدادی سامان کو عسکریت پسندوں کے حوالے کر رہی ہیں۔ ان خبروں کے بعد صومالیہ کے صدر شیخ احمد شریف کی حکومت نے ایسی غیر سرکاری تنظیموں کے خلاف تحقیقات کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بارے میں حکومتی اعلان میں کہا گیا ہے کہ اس تحقیقاتی عمل کے دوران تمام غیر سرکاری تنظیموں کے کام اور دائرہ کار کا جائزہ لیا جائے گا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : مقبول ملک