صومالیہ میں مسلح افراد نے بین الاقوامی امدادی تنظیم ریڈکراس کے ساتھ کام کرنے والی ایک جرمن نرس کو اغوا کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بدھ کی شام اس نرس کو دارالحکومت موغادیشو سے اغوا کیا گیا۔
اشتہار
بین الاقوامی ریڈکراس کی جانب سے جمعرات کو اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مسلح حملہ آور موغادیشو میں امدادی تنظیم کی عمارت میں داخل ہوئے اور اس جرمن نرس کو اسلحے کے زور پر اپنے ساتھ لے گئے۔
بین الاقوامی ریڈکراس کے نائب سربراہ برائے صومالیہ ڈینیئل او میلے نے اپنی اس ساتھی کارکن کے اغوا پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ ’’وہ نرس ہیں، جو دن رات لوگوں کی زندگیاں بچانے اور صومالیہ میں صحت کی صورت حال کی بہتری کے لیے کام کر رہی تھیں۔‘‘
ریڈکراس کے مطابق یہ واقعہ بدھ کی رات آٹھ بجے موغادیشو میں پیش آیا۔ بیان کے مطابق مسلح حملہ آور دارالحکومت کی ایک عمارت میں داخل ہوئے اور اسلحے کے زور پر اس نرس کو ساتھ لے گیے۔ ریڈ کراس تنظیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اس جرمن نرس کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔
ریڈکراس کے لیے کام کرنے والے چند افراد کے حوالے سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کہا ہے کہ مسلح حملہ آور عمارت کی حفاظت پر مامور محافظوں سے بچ کر اندر داخل ہوئے اور اس خاتون کو اغوا کرتے ہوئے عمارت کے عقبی راستے سے باہر نکل گئے، جہاں ایک گاڑی پہلے ہی منتظر تھی۔ حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
یورپ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے سمندر قبرستان بن گیا
مائیگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن نامی ايک امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب گزشتہ ہفتے چودہ اپریل کو مختلف اوقات میں سمندر ميں ڈوبتی دو کشتیوں تک پہنچی تو کبھی نہ بھولنے والے مناظر دیکھے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
بہتر زندگی کی خواہش
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر زندگی کی خواہش رکھنے والے 43،000 تارکین وطن کو رواں برس سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
آنکھوں میں خوف کے سائے
ڈوبنے سےبچ جانے والا ایک مہاجر بچہ فینکس کے امدادی اسٹیشن پر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اُس کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس مہاجر بچے کو وسطی بحیرہ روم میں لکڑی کی ایک کشتی ڈوبنے کے دوران بچایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
کم سن بچہ سمندر کی گود میں
رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو فونیکس کشتی کے عملے نے ایک چند ماہ کے بچے کو اُس وقت بچایا جب کشتی بالکل ڈوبنے والی تھی۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
عملے کی مستعدی
لیبیا کے ساحلوں سے دور بحیرہ روم کے وسطی پانیوں میں ہچکولے کھاتی لکڑی کی ایک کشتی سے ایک بچے کو اٹھا کر فونیکس کے امدادی اسٹیشن منتقل کرنے کے لیے عملے کے اہلکار اسے اوپر کھینچ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
امدادی اسٹیشن پر
مالٹا کی غیر سرکاری تنظیم کے جہاز کے عرشے پر منتقل ہوئے یہ تارکین وطن خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک ربڑ کی کشتی ڈوبنے پر سمندر سے نکالا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
سمندر میں چھلانگیں
’مائیگرنٹ آف شور ایڈ اسٹیشن نامی‘ امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب سمندر ميں مشکلات کی شکار ايک ربڑ کی کشتی تک پہنچی تو اس پر سوار مہاجرين اپنا توازن کھونے کے بعد پانی ميں گر چکے تھے۔ انہيں بچانے کے ليے ريسکيو عملے کے کئی ارکان نے سمندر ميں چھلانگيں لگا ديں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
میں زندہ ہوں، یقین نہیں آتا
امدادی کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے ایک تارکِ وطن نے سمندر سے نکالے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے اپنے بچ جانے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ ڈيرن زيمٹ لوپی بھی ’فِينِکس‘ پر سوار تھے۔ انہوں نے ريسکيو کی اس کارروائی کو ديکھنے کے بعد بتایا، ’’ميں پچھلے انيس سالوں سے مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق کہانياں دنيا تک پہنچا رہا ہوں، ميں نے اس سے قبل کبھی ايسے مناظر نہيں ديکھے جو ميں نے آج ديکھے ہيں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
8 تصاویر1 | 8
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران صومالیہ میں ریڈکراس کے کسی کارکن کے اغوا کا دوسرا واقعہ ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ صومالیہ میں فعال دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے برعکس ریڈکراس کا اپنا کوئی حفاظتی نظام نہیں ہے بلکہ اس کے کارکنوں کی حفاظت کی ذمہ داری افریقی یونین کے فوجیوں پر ہے۔