1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیافریقہ

صومالیہ میں فوج پر الشباب کے حملے میں درجنوں افراد ہلاک

25 جولائی 2023

موغادیشو میں ایک ملٹری اکیڈمی پر خودکش حملے میں 20 سے 30 فوجیوں کے ہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ القاعدہ سے منسلک شدت پسند گروپ الشباب برسوں سے صومالیہ کی حکومت کو گرانے کی کوشش میں ہے۔

Somalia, Mogadischu | Angriff auf ein Hotel
تصویر: Hassan Ali Elmi/AFP/Getty Images

شدت پسند ملیشیا الشباب سے تعلق رکھنے والے ایک خودکش بمبار نے پیر کے روز صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں واقع جعل صیاد نامی ملٹری اکیڈمی پر حملہ کیا، جس میں متعدد فوجیوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔

صومالیہ میں فوج کی الشباب کے ساتھ جھڑپیں، کم از کم 21 افراد ہلاک

اس حوالے سے ملنے والی مختلف اطلاعات کے مطابق حملے میں 20 سے 30 کے درمیان فوجی ہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔

صومالیہ میں امریکی کارروائی میں داعش رہنما ہلاک

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور اس عمارت میں داخل ہوا، جہاں صومالی فوج کی 14ویں انفنٹری بریگیڈ جمع تھی۔ ان کے پاس پہنچ کر اس نے اپنی بارود سے بھری جیکٹ کو دھماکے سے اڑا دیا۔

دہشت گرد گروہ الشباب کے شدت پسند کون ہیں؟

صومالی فوج کے ایک رکن محمد حسن نے بتایا، ''جب دھماکہ ہوا، تو میں اس وقت فوجی کیمپ کے پاس ہی تھا اور ہم جائے وقوعہ کی طرف بھاگے، یہ بہت ہی خوفناک تھا۔'' ان کا مزید کہنا تھا، ''اب بھی تحقیقات جاری ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔''

صومالیہ: دو کار بم دھماکوں میں کم از کم 100 افراد ہلاک

 صومالیہ کی پارلیمان کے قانون سازوں نے حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ تعزیت کی ہے۔ ایوان کے ڈپٹی اسپیکر عبدوحی عمر ابشیرو نے اسے ''ایک قومی المیہ'' قرار دیا۔

صومالیہ اور قرنِ افریقہ میں انسانی المیہ رونما ہونے کے قریب

پارلیمنٹ کے ایک اور رکن محمد ابراہیم المعلمو کا کہنا تھا: ''متاثرین کوئی عام نوجوان نہیں تھے، وہ سروس مین تھے جو دہشت گردوں سے اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔''

گزشتہ مئی میں ایک فوجی اڈے پر حملے میں یوگانڈا کے امن دستے کے کم از کم 54 افراد مارے گئے تھےتصویر: ATMIS press

کمزور تاہم الشباب اب بھی بہت مہلک ہے

القاعدہ سے وابستہ اسلامی دہشت گرد گروپ الشباب مشرقی افریقی ممالک میں سخت شرعی قانون کے نفاذ کے مقصد سے سن 2007 سے ہی

 ایک خونریز شورش میں صومالیہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

گرچہ سن 2011 میں الشباب کے جنگجوؤں کو موغادیشو سے نکال دیا گیا تھا، تاہم اس گروپ کی جانب سے اب بھی شہری اور فوجی اہداف پر پرتشدد حملے جاری ہیں۔

مثال کے طور پر اس مہینے کے اوائل میں موغادیشو کے شمال میں 220 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے گاؤں میں الشباب کی جانب سے سڑک کنارے کیے جانے والے ایک بم دھماکے میں آٹھ شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

بہت سے دیگر حملوں میں دارالحکومت کے انتہائی اہم اہداف کو نشانہ بنانے کی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

گزشتہ مئی میں ایک فوجی اڈے پر حملے میں یوگانڈا کے امن دستے کے کم از کم 54 افراد مارے گئے تھے، جب کہ ملک کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک بیدوا تقریباً دو ہفتوں سے گروپ کے محاصرے میں رہا تھا۔

پچھلے سال صومالی حکومت اور افریقی یونین کی افواج نے امریکی فضائیہ کی مدد سے گروپ کے خلاف ایک فوجی آپریشن شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے گروپ کے بیشتر جنگجوؤں کو ان کے زیر کنٹرول زمین سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود گروپ نے دوبارہ اپنے حملے تیز کر دیے ہیں، کیونکہ حکومتی فورسز آپریشن کے اگلے مرحلے کے لیے ابھی دوبارہ منظم ہو رہی ہیں۔

حکومتی فوجی آپریشن کا ایک مقصد گروپ کے مالیاتی نیٹ ورک کو ختم کرنا ہے، جس میں گروپ کی جانب سے مقامی لوگوں پر جبری ٹیکس لگانا بھی شامل ہے۔

پیر کے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے الشباب نے کہا ہے کہ اس کے اس حملے میں 73 فوجی ہلاک اور 124 زخمی ہوئے۔ تاہم یہ اعداد و شمار فوج کی جانب سے اب تک کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے بہت زیادہ ہیں۔

صومالیہ کی 14ویں انفنٹری بریگیڈ کو ملک میں اس خونریز ترین جہادی حملے بعد تشکیل دیا گیا تھا، جس میں 14 اکتوبر 2017 کے روز ایک پرہجوم تجارتی مرکز میں بارود سے بھرے دو ٹرکوں کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ اس میں کم از کم 587 افراد ہلاک اور تقریباً 300 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

موغادیشو میں تباہ کن حملہ

01:06

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں