صومالیہ: پولیس اسٹیشن پر خود کش حملے میں چھ افراد ہلاک
11 مئی 2021
صومالیہ میں حکومت کے خلاف سرگرم الشباب اسلامی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اشتہار
صومالیہ کے دارالحکومت میں ایک پولیس اسٹیشن کے سامنے ایک خود کش بمبار نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں چھ پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے۔ انتہاپسند گروپ الشباب نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
صومالی پولیس کے ترجمان میجر صادق عدن علی دودیشی نے نامہ نگاروں کو بتایا ”خودکش بم دھماکے میں وابیری ضلع پولیس کے کمانڈر سمیت چھ پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ چھ دیگر پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔" انہوں نے مزید بتایا کہ دو زخمیوں کی حالت نازک ہے۔
پولیس ترجمان نے کہا کہ خود کش حملہ آور کے جسم کے کچھ اعضاء ملے ہیں جن کا فورینزک لیب میں تجزیہ کیا جائے گا۔
الشباب نے ذمہ داری قبول کی
الشباب گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز ہونے والے اس حملے میں پانچ پولیس اہلکار ہی ہلاک ہوئے۔
الشباب کی فوجی کارروائیوں کے ترجمان عبد الاسیس ابو معصب نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو پیر کے روز بتایا ”ہمارا ہدف پولیس کمانڈروں کو ہلاک کرنا تھا اور اس حملے میں وابیری پولیس اسٹیشن کے کمانڈر سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو ہم نے ہلاک کر دیا۔"
الشباب سن 2008 سے ہی صومالیہ میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ مرکزی حکومت کو ہٹانے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ انتہا پسند گروپ ملک میں اسلامی قوانین کی سخت تشریحات پر مبنی اپنا نظام قائم کر نا چاہتا ہے۔
الشباب کے جنگجو القاعدہ کے ساتھ مل کر دارالحکومت موغا دیشو اور صومالیہ میں دیگر علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر اکثر حملے کرتے رہتے ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔