1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالی قاتل اور ریپسٹ نے 75 اونٹ دیے تو موت کی سزا ختم

28 فروری 2020

صومالیہ میں ایک 12 سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والے ایک شخص کو 75 اونٹ دینے پر رہا کر دیا گیا ہے۔

The Wider Image: A daughter's freedom weighed against her siblings' lives
تصویر: Reuters/Z. Bensemra

بتایا گیا ہے کہ شمالی پُنٹ لینڈ کے گالکیو کے قصبے میں گزشتہ برس فروری میں 12 سالہ عائشہ الیاس عدن کو ایک مارکیٹ سے اغوا کیا گیا تھا۔ بعد میں اس بچی کو اجتماعی جنسی زیادتی اور جنسی اعضاء کاٹنے کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔ نیم خودمختار خطے پُنٹ لینڈ میں اس طرز کے جرائم کے انسداد کے لیے سن 2016 میں نیا قانون متعارف کروایا گیا تھا اور اسی قانون کے تحت تین افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ سن 2016 کا یہ قانون صومالیہ میں جنسی ہراسانی اور ریپ کو جرم تصور کرنے کے اعتبار سے پہلی قانونی کاوش کہلاتا ہے۔

ایک اور افریقی بچی نسوانی ختنے کی بھینٹ چڑھ گئی

ناجائز تعلقات کے الزام پر صومالی لڑکی سنگسار

اس واقعے میں سزائے موت پانے والے تین میں سے دو افراد کو رواں ماہ فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا تھا، تاہم عبدی سلان عبدی رحمان نامی تیسرے مجرم کی سزائے موت کو بغیر کوئی وجہ بتائے ملتوی کر دی گئی تھی۔

مقتولہ بچی کے ایک رشتہ دار نے تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس مجرم کو 20 فروری کو رہا کر دیا گیا ہے کیوں بچی کے ریپ اور قتل کے ہرجانے کے طور پر اس بچی کے والدین اور مجرم کے درمیان ایک راضی نامہ طے پا گیا، جس کے تحت قاتل مقتولہ بچی کے خاندان کو 75 اونٹ دے گا۔

صومالیہ میں خواتین کے حقوق کی تنظیم جینڈر ہب سے وابستہ اوبہ محمد نے اس واقعے پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''مجھے بہت افسوس ہے کہ کس طرح تیسرا شخص رہا ہو گیا۔ پُنٹ لینڈ اور صومالیہ میں جنسی جرائم سے متاثرہ خواتین کو اس لیے انصاف نہیں مل سکتا کیوں کہ مقامی روایاتی رہنما ان معاملات میں شامل ہو جاتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''میں ایسے معاملات کو ثقافت اور روایتی قوانین سے حل کیے جانے کے سخت خلاف ہوں۔ ہمارے عدالتی نظام میں یہ سب سے بڑی خامی ہے اور اسی وجہ سے بچیوں اور خواتین کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔‘‘

وزارت انصاف کی جانب سے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ریپ جیسے واقعات صومالیہ میں بہت عمومی ہیں اور عام طور پر ایسے واقعات میں ملوث مجرم بچ جاتے ہیں۔ صومالیہ جو کئی دہائیوں سے تشدد کی آگ میں جل رہا ہے، وہاں قومی ادارے کم زور ہیں  اور قانون کی بالادستی قائم کرنے نہیں کر سکتے۔ صومالیہ میں عموماﹰ جنسی زیادتی کا شکار بننے والی لڑکیوں اور خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ہرجانہ قبول کر لیں۔ یہ ہرجانہ عموماﹰ مال مویشیوں اور اونٹوں کی شکل میں ادا کیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں