ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں حیران کُن اضافہ، امریکی رپورٹ
2 اگست 2018
ماحولیات سے متعلق ایک خصوصی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس باعث زمین کے درجہٴ حرارت میں اضافہ ہونے سے کئی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔
اشتہار
یہ رپورٹ امریکا کے ساڑھے چار سو سے زائد سائنسدانوں نے ساٹھ مختلف ممالک سے حاصل کی گئی معلومات کی روشنی میں مرتب کی ہے۔ یہ سالانہ بنیاد پر جاری ہونے والی ’اسٹیٹ آف دی کلائمیٹ رپورٹ‘ کہلاتی ہے۔ اس دستاویز کو امریکا اور عالمی سطح پر انتہائی معتبر حوالہ تصور کیا جاتا ہے۔
امریکی سائنسدانوں نے رپورٹ میں مختلف زمینی حصوں پر ماحول کی خراب ہوتی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے سن 2017 میں مختلف ممالک نے زمین کی فضا کو ’ابنارمل‘ آلودہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سن 2017 ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تاریخی پیرس کلائمیٹ ڈیل سے علیحدگی اختیار کی تھی۔
امریکا کو چین کے بعد زمینی ماحول آلودہ کرنے والا دوسرا بڑا ملک قرار دیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ماحولیاتی تبدلیوں کو ایک ’چینی ڈرامہ‘ قرار دے کر ماحولیاتی تحفظ کے لیے سابق صدر اوباما کے دور کے کئی اقدامات کو ختم کر دیا تھا۔ یہ اقدامات اوباما انتظامیہ نے 190 ممالک کے درمیان طے پانے والی پیرس کلائمیٹ ڈیل کی روشنی میں متعارف کرائے تھے۔
تین سو صفحات پر مشتمل ’اسٹیٹ آف دی کلائمیٹ رپورٹ‘ امریکی موسمیاتی سوسائٹی اور سمندر اور فضا سے متعلق امریکی قومی ایڈمنسٹریشن کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ضرر رساں یا سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں غیرمعمولی اضافے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج کرنے والے بڑے ممالک کون کون سے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق زمین کے مختلف حصوں میں آنے والے طوفانوں، سیلابوں، انتہائی درجہٴ حرارت، کم ہوتی برف اور قحط کے پھیلاؤ کا باعث یہی ماحولیاتی آلودگی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ سن 2017 میں انتہائی زہریلی گرین ہاؤس گیسوں کا بے پناہ اخراج ہوا۔ اس اخراج کی وجہ سے زمین کی بالائی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں مسلسل اضافے نے سن 1960 کے زمینی ماحول کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس سب سے زیادہ درجہٴ حرارت ایک سال پہلے کے قریب تھا لیکن زمین پر کئی علاقوں کو شدید گرم موسم کا سامنا زیادہ دیر تک کرنا پڑا تھا۔ درجہٴ حرارت میں اضافے کا سامنا کرنے والے ممالک میں ارجنٹائن، بلغاریہ، اسپین اور میکسیکو نمایاں ہیں اور انہی ممالک میں موسم گرما میں طوالت رہی۔
اسی طرح قطب شمالی و جنوبی میں بھی درجہٴ حرارت بڑھنے لگا ہے اور یہ گزشتہ دو ہزار سالوں میں آنے والی پریشان کن صورت حال ہے۔ اس برفانی خطے میں مسلسل برف گرنے کی رفتار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ قطب جنوبی کے بڑے گلیشیرز کی جسامت میں بائیس ملی میٹر کمی ہو چکی ہے اور ان پر جمی برف مسلسل پگھل کر پانی بنتی جا رہی ہے۔
یہ بھی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ زمین کے درجہٴ حرارت میں اضافہ ہونے سے اِس کی فضا میں آبی بخارت کے حجم میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اور اس میں تسلسل رہنے سے مختلف زمینی حصوں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکے گا۔
پلاسٹک کی ماحولیاتی آلودگی کا بھیانک چہرہ
خوبصورت سمندری ساحل اب پلاسٹک کی بوتلوں اور تھیلوں کے ساتھ ساتھ اِن سے مرے پرندوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ساحل دوسرے کچرے سے بھی اٹی ہوئی ہیں۔ پلاسٹک سے انسانی محبت کی قیمت بھی اب انسانوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔
تصویر: Daniel Müller/Greenpeace
پلاسٹک کی عمر
پلاسٹک ایک ہلکا پھلکا اور تادیر رہنے والا مادہ ہے۔ سن 1950 میں ابتدائی پروڈکشن کے بعد سے اسے آٹھ بلین میٹرک ٹن سے زائد یہ پیدا کیا جا چکا ہے۔ یہ مسلسل ری سائیکل بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کا مادی انحطاط ممکن نہیں اور اس کے نابود نہ ہونے نے انسانی زندگی میں انتہائی زیادہ مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کچرے کے ڈھیر سے ری سائیکل کے لیے پلاسٹک ضرور اکھٹا کیا جاتا ہے لیکن بہت سارا سمندر تک پھر بھی پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Mukoya
پلاسٹک کے دریا
دنیا بھر میں نوے فیصد پلاسٹک کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک دریا پہنچاتے ہیں۔ ان میں دنیا کے دس بڑے دریا شامل ہیں۔ ان کے نام ہیں، یانگژی، زرد، سندھ، ہائی، نیل، گنگا، پرل، آمو، نائیجر اور میکانگ۔ یہ دریا انتہائی گنجان شہروں کے قریب سے گزرتے ہیں اور اپنے ساتھ کچرا بھی بہا کر لے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/G. B. Dantes
پرندوں نے بھی پلاسٹک کا استعمال شروع کر دیا
کئی پرندوں کے لیے دریاؤں، سمندروں اور جنگلوں میں پائے جانے والے کاٹھ کباڑ میں پلاسٹک کو اپنے لیے مفید بھی جانا ہے۔ ڈنمارک کی کوپن ہاگن جھیل میں یہ پرندہ پلاسٹک کو اپنے گھونسلے میں استعمال کیے ہوئے ہے۔ ریسرچر کے مطابق انسانوں کی طرح پرندوں کے لیے بھی پلاسٹک انتہائی غیرمفید ہے۔
تصویر: picture-alliance/Ritzau Scanpix
پلاسٹک استعمال کرنے کے خطرناک نتائج
پلاسٹک کے مکمل طور پر نابود ہونے کا عرصہ بہت طویل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی موجودگی ماحولیات کے لیے تباہ کن اثرات کی حامل ہے۔ دنیا بھر میں پچاس فیصد پلاسٹک کوڑے دانوں میں پھینک دیا جاتا ہے جو انجام کار ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے غیرضروری استعمال کی وجہ سے سمندری حیات و نباتات پر تباہ کن اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Balance
پلاسٹک خوراک کا حصہ بن چکا ہے
جانور پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی جان کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق یورپ، روس، آئس لینڈ اور دیگر ممالک کے کئی جزائر پر چونتیس فیصد سمندری حیات کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ مجموعی طور پر چوہتر فیصد پلاسٹک قابل ہضم نہیں ہوتا۔ اس سے انسانی بدن میں بھی جانے سے اندرونی اجزاء کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پلاسٹک نے انسانوں اور پرندوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی عظیم الجثہ مخلوق کو بھی ہلاک کرنے سے گریز نہیں کیا۔ تھائی نہر میں ایک ایسی وہیل مچھلی پائی گئی تھی، جس کو سانس لینے میں شدید دشواری تھی کیونکہ اُس کے گلے میں پلاسٹک کا بیگ پھنسا ہوا تھا۔ علاج کے دوران وہیل کے اندر سے پانچ پلاسٹک کے تھیلے نکلے تھے۔ یہ وہیل بعد میں جانبر نہیں ہو سکی تھی۔ اس وہیل کا معدہ اسی فیصد پلاسٹک کچرے سے بھرا ہوا تھا۔
تصویر: Reuters
پلاسٹک کی دیکھی اور ان دیکھی صورتیں
انسانی زندگی میں پلاسٹک کی مختلف صورتیں ہیں۔ ان میں بعض ہمارے سامنے ہیں اور بعض مختلف اشیا میں ملفوف ہوتی ہیں۔ سمندر میں انتہائی باریک پلاسٹک کے ذرات تیرتے پھرتے ہیں اور یہ بھی سمندری حیات کے لیے شدید نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ان ذرات نے مچھلیوں اور سمندری پرندوں کی افزائش پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NOAA Pacific Islands Fisheries Science Center
پلاسٹک سے نجات کی صورت دکھائی نہیں دے رہی
انسانوں کو پلاسٹک کے استعمال سے کیونکر نجات مل سکتی ہے۔ ماحول دوست پلاسٹک کی طویل ری سائیکلنگ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک کے استعمال کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یورپی یونین نے اس حوالے سے مثبت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک پر پابندی کا امکان ہے۔