1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ضلح جھنگ میں سیلاب کی صورتحال تشویشناک

تنویر شہزاد، لاہور9 ستمبر 2014

پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے علاقوں میں تباہی مچانے کے بعد اب ضلع جھنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہاں ہیڈ تریموں میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔

تصویر: REUTERS/M. Raza

جھنگ شہر اور ہیڈ تریموں کی تنصیبات کو بچانے کے لیے ضلع جھنگ میں تحصیل ہیڈ کوارٹرز اٹھارہ ہزاری کے حفاظتی پشتے کو توڑنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ منگل کی شام تک بارود نصب کر کے حفاظتی پشتے کو دھماکے سے اڑانے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے تھے۔

’حکومت امداد کے نام پر زبانی جمع خرچ کر رہی ہے اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاموں میں لگے ہوئے ہیں‘تصویر: REUTERS/M. Raza

محکمہ آبپاشی کے حکام کے بقول ہیڈ تریموں پر زیادہ سے زیادہ چھ لاکھ چون ہزار کیوسک پانی کے گزرنے کی گنجائش ہے لیکن محکمہ موسمیات پنجاب کے سربراہ محمد ریاض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگلے چھتیس گھنٹوں کے دوران اس مقام سے آٹھ لاکھ کیوسک سے بھی زائد پانی گزرنے کا امکان ہے۔

اس صورتحال نے ضلح جھنگ اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ لوگوں میں خوف و ہراس پایا جا تا ہے اور وہ اپنا سامان اور گھر بار چھوڑ کر محفوط مقامات کی طرف جا رہے ہیں۔

اٹھارہ ہزاری کے اسسٹنٹ کمشنر افضل حیات تارڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک لاکھ کی آبادی والے شہر اٹھارہ ہزاری اور اس کے ارد گرد واقع نوے سے زائد دیہات کو مکمل طور پر خالی کرا لیا گیا ہے۔ ان کے بقول متاثرین کے لیے چار امدادی کیمپ بھی قائم کر دیے گئے ہیں جہاں ان کے لیے خوراک، ادویات اور جانوروں کے لیے چارے کی فراہمی بھی ممکن بنا دی گئی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ بعض علاقوں میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر جانے کے لیے تیار نہیں ہو رہے اور یہ بات ان شہریوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

’ایک لاکھ کی آبادی والے شہر اٹھارہ ہزاری اور اس کے ارد گرد واقع نوے سے زائد دیہات کو مکمل طور پر خالی کرا لیا گیا ہے‘تصویر: REUTERS/S. Farid

اطلاعات کے مطابق اٹھارہ ہزاری کا بند توڑنے کی صورت میں وہاں سے گزرنے والے پانی کی سطح کئی فٹ بلند ہو گی اور اس سے بہت زیادہ تباہی کا خطرہ ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر کے بقول وہاں پہنچنے والا سیلابی ریلا انیس سو بانوے کے بعد سے وہاں پہنچنے والا سب سے بڑا سیلابی ریلا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اٹھارہ ہزاری کے رہائشی حبیب نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ جھنگ شہر میں رہنے والے بااثر لوگوں اور سیاستدانوں کے دباؤ پر اٹھارہ ہزاری کا حفاطتی بند توڑ کر وہاں کے غریب عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس نوجوان کے بقول جھنگ سائیڈ پر حفاطتی پشتوں کو مضبوط بنانے سمیت دیگر آپشنز پر حکومت کیوں توجہ نہیں دیتی۔

اس نوجوان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت امداد کے نام پر زبانی جمع خرچ کر رہی ہے اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ سرکاری کیمپوں کی طرف جانے کی بجائے اپنے رشتے داروں یا تھل کے علاقوں کی طرف جا رہے ہیں۔ حبیب کے بقول ہر طرف ہو کا عالم ہے اور اٹھارہ ہزاری کی گلیوں اور بازاروں میں ویرانوں کے ڈیرے ہیں۔

حالیہ سیلاب اور بارشوں کے دوران پنجاب میں ایک سو اٹھائیس افراد ہلاک اور دو ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem

ایک متاثرہ شخص ذوالفقار علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صورتحال کافی خراب ہے اور لوگ اس آفت سے بچنے کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس وقت پاکستان کے آس پاس سیلاب کا باعث بننے والی بارشوں کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ سیلابی ریلا اگلے چار پانچ دنوں میں سندھ پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ محکمہ موسمیات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت دریائے راوی اور ستلج میں مختلف مقامات پر نچلے اور اونچے درجے کا سیلاب ہے لیکن اس میں تشویش والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ یہاں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔

پنجاب کے متاثرہ اضلاع میں ریلیف کا کام بھی جاری ہے، بعض مقامات پر وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم نواز شریف نے بھی منگل کے روز سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔

منگل کے روز سرکاری طور پر بتایا گیا کہ حالیہ سیلاب اور بارشوں کے دوران پنجاب میں ایک سو اٹھائیس افراد ہلاک اور دو ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ ادھر لاہور میں داروغہ والا کے علاقے میں نماز ظہر کے وقت ایک مسجد کی چھت گرنے سے دس افراد ہلاک ہو گئے۔ چھت کا لینٹر کاٹ کر دب جانے والے افراد کو نکالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں