ضلع کرم میں دو قبائل کے مابین تصادم، بیالیس افراد ہلاک
29 جولائی 2024![کرم کا علاقہ ماضی میں بھی متعدد بار فرقہ وارانہ لڑائیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا زیاں دیکھ چکا ہے (فائل فوٹو)](https://static.dw.com/image/16796599_800.webp)
پاکستانکے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں حکام کے مطابق دو قبائل کے درمیان زمین کے تنازعے پر جھڑپوں میں اب تک کم ازکم بیالیس افراد ہلاک اور ایک سو اسی سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں خاندانی جھگڑے عام ہیں تاہم یہ خیبر پختونخوا میں خاص طور پر طویل اور پرتشدد ہو سکتے ہیں، جہاں بسنے والے روایتی قبائلی اقدار کے ضابطوں کی پابندی کرتے ہیں۔
ایک مقامی پولیس اہلکار مرتضیٰ حسین کے مطابق مدگی اور مالی خیل قبائل کے مابین بدھ کے روز یہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی، جب ایک مسلح شخص نے زرعی زمین پر دہائیوں سے جاری تنازعے پر مذاکرات کرنے والی کونسل پر فائرنگ کر دی۔
اس پولیس اہلکار کے مطابق اس حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا تھا تاہم اس واقعے نے دونوں قبائل کے مابین پائی جانے والی دیرینہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو پھر سے ہوا دے دی۔ مدگی قبیلہ سنی جبکہ مالی خیل شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں صوبائی وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''کرم میں حکومتی کوششوں سے جنگ بندی ہو گئی تھی ۔ تاہم رات گئے فائرنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مقامی پولیس نے بدھ سے جاری ان جھڑپوں میں اب تک مرنے والوں کی تعداد 42 بتائی ہے، مارے جانے والوں میں تمام مرد ہیں جبکہ 183 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، جن میں کچھ خواتین بھی شامل ہیں۔
اس علاقے میں قبائلی جنگجو خواتین، بچوں اور گھروں کو نشانہ نہ بنانے کے ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ ان جھڑپوں کے دوران تشدد سے ''عام شہریوں نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے،‘‘ جن کی نقل و حرکت رک گئی ہے۔ اپنے ایک بیان میں اس ادارے کا کہنا تھا، ''ایچ آر سی پی کے پی (کیبر پختوانخوا) حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سیز فائر کے برقرار رہنے کو یقینی بنائے۔ تمام تنازعات خواہ وہ زمین کی وجہ سے ہوں یا فرقہ واریت کا شاخسانہ ہوں، انہیں تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کے ساتھ کے پی حکومت کی طرف سے کرائے گئے مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔‘‘
پاکستان ایک سنی اکثریتی ملک ہے، جہاں شیعہ افراد کو اکثر امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کرم وفاق کے زیر انتظام سابقہ قبائلی علاقوں کا حصہ اور ایک نیم خودمختار علاقہ تھا، جسے سن 2018 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔ یہ اقدام اس خطے کو ریاستی قانونی اور انتظامی دھارے میں تو لے آیا لیکن پولیس اور سکیورٹی فورسز کو اکثر اوقات یہاں قانون کی عملداری کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
ش ر⁄ م ا (اے ایف پی)