ضلع کرم میں پھر فرقہ وارانہ تصادم، کم ازکم سولہ افراد ہلاک
13 اکتوبر 2024پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ایک تازہ فرقہ وارانہ تصادم میں تین خواتین اور دو بچوں سمیت کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے۔
یہ اس فرقہ وارانہ خونریزی کے دوران ہونے والی تازہ ترین ہلاکتیں ہیں، جس نے اس ضلع کو کئی مہنیوں سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کرم میں سنی اور شیعہ قبائل کے مابین وقفے وقفے سے لڑائی جاری ہے۔ پہلے ایک نیم خود مختار علاقے یا قبائلی ایجنسی کی حیثیت رکھنے والا ضلع کرم سنی اور شیعہ فرقوں سے تعلق رکھنے والے قبائل کے درمیان خونریز تصادم کی تاریخ رکھتا ہے۔
اس وجہ سے گزشتہ برسوں کے دوران سینکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ کرم کی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سنیوں کا ایک قافلہ ہفتے کے روز نیم فوجی دستوں کی حفاظت میں سفر کر رہا تھا کہ وہ حملے کی زد میں آ گیا۔
اس اہلکار کا کہنا تھا، ''اس کے نتیجے میں، تین خواتین اور دو بچوں سمیت چودہ افراد ہلاک اور چھ دیگر زخمی ہو گئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ فرنٹیئر پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے حملہ آوروں میں سے دو کو ہلاک کر دیا، جن کی شناخت ایک شیعہ قبیلے کے ارکان کے طور پر کی گئی ہے۔
اس ہلکار نے مزید کہا کہ تازہ ترین حملے کے ''فرقہ وارانہ مقاصد‘‘ تھے، جنہوں نے اس ''خطے کو گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جن کی وجہ سے ہر تنازعہ فرقہ وارانہ جہت اختیار کر لیتا ہے۔‘‘ خیال رہے کہ رواں برس جولائی اور ستمبر کے مہینوں میں ہونے والی مسلح جھڑپوں میں بھی درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھےاور پھر ایک جرگے یا قبائلی کونسل کی مداخلت کے بعد ہی یہ سلسلہ رکا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ حکام تازہ واقعے کے بعد بھی جنگ بندی کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں قبائلی اور خاندانی جھگڑے عام ہیں۔ تاہم یہ خیبر پختونخوا کے دور درازعلاقوں میں خاص طور پر طویل اور پرتشدد ہو سکتے ہیں، جہاں کمیونٹیز روایتی قبائلی اعزاز کے ضابطوں کی پابندی کرتی ہیں۔ سنی اکثریتی مسلم ملک پاکستان میں شیعہ اقلیت طویل عرصے سے اپنے ساتھ امتیازی سلوک اور اپنے تشدد کا شکار ہونے کے خلاف شکایت کرتی آئی ہے۔
ش ر ⁄ م م (اے ایف پی)