پاکستان میں سولہ اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے چھ نشستیں جیت کر شاندار کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اشتہار
کل اتوار کے روز ہونے والے ان ضمنی انتخابات کے نصف شب کے بعد موصول ہونے والے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کو ملنے والی قومی اسمبلی کی تمام چھ نشستوں پر عمران خان کامیاب ہوئے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ سے جیتنے کے بعد ایک بار پھر قومی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
ادھر پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی طرف سے خالی کردہ تین نشستوں میں سے بھی دو نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف ہی نے کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ ن پنجاب اسمبلی کی صرف ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اسلام آباد میں حکمران موجودہ سیاسی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے، جسے ملتان اور کراچی میں قومی اسمبلی کی دو سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔
پی ٹی آئی کی شاندار فتح
ان ضمنی انتخابات میں عمران خان خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی تینوں خالی نشستوں کو اپنے نام کر لینے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان کو دس ہزار، پشاور میں اے این پی کے غلام احمد بلور کو پچیس ہزار اور مردان میں جے یو آئی کے محمد قاسم کو آٹھ ہزار پانچ سو ووٹوں کی سبقت سے شکست دی۔
اس کے علاوہ عمران خان نے فیصل آباد میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی رشتہ دار اور مسلم لیگ ن کے سیاست دان عابد شیر علی کو پچیس ہزار ووٹوں کی برتری سے ہرایا جبکہ کراچی کے ایک حلقے میں انہوں نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو اکتیس ہزار آٹھ سو سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔
دوسری طرف ننکانہ صاحب میں پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے استعفے کے بعد خالی ہونے والی نشست پر بھی عمران خان ہی کامیاب ہوئے۔ انہوں نے سابق رکن قومی اسمبلی رائے منصب علی خان کھرل کی بیٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی امیدوار شذرا منصب کو ساڑھے بارہ ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے ہرایا۔
پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں خانیوال اور بہاولنگر میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نون کو ملنے والی واحد سیٹ شیخوپورہ سے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کی تھی۔
پیپلز پارٹی کی پیش قدمی
گزشتہ روز کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو شکست دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کراچی میں ملیر کے علاقے سے جس واحد نشست سے ہارے، وہاں پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ نے انہیں دس ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔
ادھر ملتان میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اپنی بیٹی مہر بانو کو یہ الیکشن لڑوایا تھا۔ یہ وہی حلقہ تھا، جہاں سے 2018ء میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کامیاب ہوئے تھے۔
اس حلقے میں شاہ محمود قریشی انتخابی مہم کے دوران اپنا پورا زور لگانے کے باوجود اپنی بیٹی کو جتوا نہ سکے، جنہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کے ہاتھوں تقریباﹰ بیس ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے ووٹروں نے یہ سیٹ موروثی سیاست کی نذر کر دیے جانے کے عمل کو پسند نہ کیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی بدترین شکست
پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب میں مجموعی طور پر پانچ نشستوں پر ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور چار نشستوں پر اسے شکست ہوئی۔ فیصل آباد کا وہ علاقہ جو تاریخی طور پر مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے، وہاں نواز شریف کے رشتہ دار عابد شیر علی بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ مقامی ووٹروں کے مطابق عابد شیر علی لندن میں میاں نواز شریف کے پاس اور اپنے حلقے کے عوام سے دور رہے اور اسی لیے رائے دہندگان نے یہاں بھی موروثی سیاست کے خلاف ووٹ دیا۔
اشتہار
مسلم لیگ ن کیوں ہاری؟
تجزیہ نگار مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے ان انتخابات کے ملکی سیاست پر اثرات کو کم سمجھتے ہوئے بھرپور انتخابی مہم چلانے سے گریز کیا۔ ن لیگ نے اپنے حلقوں میں کوئی بڑا جلسہ نہ کیا۔ سہروردی کے بقول مریم نواز چند دن بعد بھی لندن جا سکتی تھیں، نواز شریف ویڈیو لنک کے ساتھ بھی ووٹروں سے مخاطب ہو سکتے تھے۔ ''اور تو اور، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی سمیت کوئی مرکزی لیڈر بھی اس انتخابی مہم میں کہیں نظر نہ آیا۔ اسی لیے یہ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔‘‘
دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران مہنگائی، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ووٹروں نے مسلم لیگ ن کی حکومت پر غصے کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق ضمنی انتخابات کے نتائج کا یہ رجحان یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ لوگ موجودہ وفاقی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور انہوں نے کرپٹ لوگوں کے خلاف مقدمات کے خاتمے کو بھی ناپسند کیا ہے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
ایک اور تجزیہ نگار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی فتح اور مسلم لیگ ن کی شکست کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ووٹروں نے عمران خان کو بدنام کرنے کے لیے جاری کی گئی آڈیو لیکس کا بھی کوئی اثر نہیں لیا۔
انتخابی نتائج کے سیاسی اثرات
فاروق حمید سمجھتے ہیں کہ اب عمران خان کی عوامی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، ان نتائج کے بعد ملک کے 'بڑے سٹیک ہولڈرز‘ کے لیے عمران خان کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہو گا اور ان پر ملک میں جلد عام انتخابات کرانے کے لیے دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔
مزمل سہروردی کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ نومبر کے مہینے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اسے عمران کے مطالبے کے مطابق ملک میں جلد انتخابات کرانے کی حمایت کی فرصت نہیں۔ انہوں نے کہا، ''ان نتائج نے پی ڈی ایم کو بھی یہ بتا دیا ہے کہ جلد عام انتخاب کروانا اب اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے حکومت اپنی مدت پوری کرنا چاہے گی۔‘‘
یہ انتخابی نتائج قومی اسمبلی میں پہلے سے موجود جماعتوں کی عددی حیثیت میں کسی قابل ذکر تبدیلی کا باعث نہیں بنیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پہلے ہی قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور عمران صرف صرف ایک ہی سیٹ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
6 تصاویر1 | 6
کیا عوامی حمایت عمران خان کو حکومت دلوا سکتی ہے؟
فاروق حمید سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے سپورٹر اب ووٹروں میں بدلتے جا رہے ہیں اور انہیں ملکی تاریخ کی نہ صرف سب سے بڑی عوامی حمایت مل رہی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے ان انتخابی نتائج میں مستقبل کی ممکنہ جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ فاروق حمید کے خیال میں آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی ممکنہ طور پر دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
دوسری طرف مزمل سہروردی کا خیال ہے کہ اصل سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی عمران خان کی جگہ اپنے کسی عام ورکر کو الیکشن میں امیدوار بناتی، تو کیا پھر بھی یہی نتائج حاصل ہوتے؟ ان کے خیال میں مسلم لیگ ن کی اہمیت کا بھی لازمی سے کم اندازہ نہیں لگایا جانا چاہیے کیونکہ اس پارٹی پر اعتماد کرنے والے ووٹروں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔
مزمل سہروردی کے مطابق، ''عمران خان نے ن لیگ سے بیانیہ لے کر انہیں حکومت دے دی۔ اب انہیں حکومت لینے کے لیے بیانیہ واپس کرنا پڑے گا۔ وہ مزاحمت کی سیاست اور حقیقی آزادی یا 'ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کے ساتھ پاکستان میں کبھی بھی اقتدار میں نہیں آ سکیں گے۔ انہیں حکومت میں آنے کے لیے اپنے بلند بانگ نعروں کے برعکس اسی طرح کی کسی مصلحت پسندی سے کام لینا ہو گا، جیسی مصلحت پسندی کا مظاہرہ شریف برادران نے موجودہ حکومت میں آنے کے لیے کیا تھا۔ الیکشن تو عمران خان نے گزشتہ بھی بہت اچھی طرح جیتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس عوامی مقبولیت کے بعد انہوں نے پہلے آخر اپنا کون سا ہدف حاصل کر لیا تھا، جو اب کر لیں گے۔‘‘
تجزیہ نگار خالد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دکھ کی بات یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں ملک میں سیاسی استحکام کا حصول نظر آ رہا ہے اور نہ ہی مالی بحران کا خاتمہ۔ سیاسی کھیل تماشہ پہلے بھی جاری تھا اور اب بھی۔ بس عوام کے مسائل ہیں، جو نظر انداز ہی کیے جا رہے ہیں۔‘‘
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔