ضمنی انتخابات: ’مقابلہ نہیں تو اپنے عزیزوں کو جتوا دیتے ہیں‘
24 نومبر 2025
پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس جیت کو نون لیگ حکومت کی کارکردگی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ یہ الیکشن ایک ''ویک اپ کال‘‘ ہے اور ایک ''فیک سسٹم‘‘ کو کب تک چلایا جاتا رہے گا؟
انگریزی اخبار ڈان کے صحافی امجد علی کے مطابق یہ یکطرفہ الیکشن تھا، جس کا نتیجہ پہلے سے معلوم تھا۔ وہ کہتے ہیں، ''پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کیا، جبکہ جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور جمیعت علمائے اسلام سمیت دیگر جماعتیں بھی پنجاب کے انتخابی میدان میں نظر نہیں آئیں۔‘‘
سینئر صحافی مقصور اعوان کے مطابق لاہور اور ہری پور کے قومی اسمبلی حلقوں میں کچھ مقابلہ تھا لیکن سمن آباد میں اصل مقابلہ آرائیں برادری کے اندر تھا، ''ایک طرف بائیکاٹ تھا، دوسری طرف حکومت، ترقیاتی کام اور وزراء کے رشتہ دار تھے، جبکہ پی ٹی آئی کے پاس اپنا انتخابی نشان تک نہیں تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ''واک اوور‘‘ کی صورتحال تھی۔
یکطرفہ انتخابات کا الزام
بیرسٹر گوہر علی خان کے مطابق ان انتخابات میں عوام نے موجودہ انتخابی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب امیدواروں کو منصفانہ موقع نہ ملے، پوسٹر لگانے کی اجازت نہ ہو تو ایسے الیکشن کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ''الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہا۔ پنجاب میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی وجہ سے ہم نے حصہ نہیں لیا۔‘‘
’ستائیسویں آئینی ترمیم ڈر اور خوف کی پیداوار ہے‘
صحافی مقصود اعوان کہتے ہیں کہ کئی نشستیں وفاقی وزراء، مشیروں اور ارکان اسمبلی کے قریبی رشتہ داروں کے حصے میں آئیں، جن میں فیصل آباد سے طلال چوہدری کے بھائی بلال بدر چوہدری، رانا ثناء اللہ کے داماد رانا احمد شہریار، راجہ ریاض کے بیٹے راجہ دانیال احمد، ڈی جی خان سے اویس لغاری کے رشتہ دار محمود قادر لغاری، ہری پور میں بابر نواز، لاہور میں میاں محمد نعمان، سرگودھا میں میاں سلطان رانجھا، مظفرگڑھ میں پیپلز پارٹی کے میاں علمدار قریشی، میانوالی میں علی حیدر نور نیازی، ساہیوال میں محمد طفیل جٹ اور محمد حنیف جٹ برادران شامل ہیں۔
ان انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے؟
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق ان نتائج سے سیاست پر گہرے اثرات نہیں پڑیں گے، ''حکمران جماعت کی پوزیشن پہلے سے مستحکم ہے، البتہ نون لیگ کو سادہ اکثریت مل گئی ہے اور اب وہ پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں رہی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ برس کے عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ 56 فیصد تھا، جو یہاں آدھا رہ گیا، اس سے عدم دلچسپی یا اعتماد کی کمی ظاہر ہوتی ہے، ''پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کے بعد رہنماؤں نے سوچا کہ مقابلہ نہیں تو اپنے عزیزوں کو جتوا دیں۔ یہ جمہوریت کے لیے اچھا نہیں۔‘‘
تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا کہ ان ضمنی انتخابات نے نواز لیگ کی حکمرانی کا اخلاقی جواز مزید کمزور کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''عام انتخابات میں دھاندلی کے بعد، جوڈیشل کوٹہ سے مخصوص نشستیں بانٹ دی گئیں۔ اب آدھی مدت کے لیے بلاول بھٹو کا وزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا، '' اتحادیوں میں تناؤ بڑھے گا۔ پی ٹی آئی کی عدم شرکت سے سیاسی توازن خراب ہو گیا ہے اور اسمبلیاں ربر اسٹیمپ بن کر رہ جائیں گی۔‘‘ امتیاز عالم کہتے ہیں کہ یہ انتخابات عوام کے لیے اچھا شگون نہیں ہیں۔