عراقی شیعہ مذہبی رہنما مقتدی الصدر نے ایران کے شدید مخالف سنی ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ہے۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت پر ہوئی، جب یہ سنی ممالک خطے میں ایران کے اثرورسوخ پر قابو پانے کی کوشش میں ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق عراقی شیعہ مذہبی رہنما مقتدی الصدر نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دوروں کے دوران متعلقہ ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ علاقائی صورتحال پر گفتگو کی۔ مقتدی الصدر ایک عشرے قبل عراق جنگ میں اپنے حامیوں پر زور دیتے تھے کہ وہ امریکی افواج کو نشانہ بنائیں جبکہ یہ خیال بھی عام ہے کہ وہ ایران نواز ہیں۔
تاہم حالیہ کچھ عرصے میں مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ بالخصوص عراق میں داعش کے جہادیوں کے خلاف ایران نواز ملیشیا عراقی فورسز کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہیں۔ اس صورتحال میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مقتدی الصدر سیاسی محاذ پر اپنی بین الاقوامی حمایت بڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ آئندہ برس عراق میں پارلیمانی انتخابات ہونا ہیں اور اس سے قبل مقتدی الصدر ملکی اور عالمی سطح پر رابطہ کاری بڑھا چکے ہیں۔
موصل: جنگی محاذ پر لوگوں کی زندگی
01:16
مقتدی الصدر اور خلیجی عرب ممالک کے اتحاد کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ ابھی تک معلوم نہیں لیکن اس شیعہ رہنما اور سنی ممالک کے حکمرانوں کے مابین ہونے والی ملاقاتوں کی تصاویر میڈیا پر دھوم مچا چکی ہیں۔ اس تناظر میں ایران کے اخبار کیھان نے لکھا، ’’الصدر کو خود کو السعود کو فروخت کرنے کی ضرورت آخر کیوں پڑی؟‘‘ کٹر نظریات کے حامل اس اخبار نے مزید لکھا کہ اگر الصدر نے اس روِش کو برقرار رکھا تو ’ان کی مقبولیت گر جائے گی اور وہ تنہا ہو جائیں گے‘۔
الصدر نے تین جولائی کو سعودی عرب میں کراؤن پرنس محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی۔ بعد ازاں ان دونوں رہنماؤں کی ایک تصویر بھی جاری کی گئی تھی، جس میں ایک خوشگوار ماحول نمایاں تھا۔ ساتھ ہی ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ان دونوں رہنماؤں نے عراق کی داخلی صورتحال کے علاوہ علاقائی حالات اور مشترکہ مفادات پر بھی گفتگو کی۔
سعودی عرب کے اس دورے کے بعد اتوار کے دن مقتدی الصدر نے متحدہ عرب امارات میں دبئی کے طاقتور پرنس شیخ محمد بن زايد آل نهيان سے ملاقات کی۔ بعد ازاں پرنس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’تجربات ہمیں سکھاتے ہیں کہ عرب اور مسلمانوں میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں تقسیم کی وکلالت کرنے والوں کو رد کر دینا چاہیے۔‘‘
سابق امریکی خفیہ ایجنٹ لوری پلاٹکن بوگہارٹ نے اے پی سے گفتگو میں کہا، ’’یہ ایک بڑا سوال ہے کہ عراق میں استحکام کیسے لایا جائے اور وہاں ایران کے اثرورسوخ کو کس طرح کم کیا جائے۔ آج کل ’واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی‘ سے وابستہ بوگہارٹ نے مزید کہا کہ سعودی اور اماراتی حکام کی طرف سے مقتدی الصدر جیسی کسی شخصیت سے مراسم بڑھانا، اس سوال کا ایک جواب ہو سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شیعہ رہنما الصدر کو عراق میں بڑی سطح پر عوامی حمایت بھی حاصل ہے اور ناقدین کے مطابق وہ ملکی سیاسی منظر نامے کو بدلنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔