’طاقت کا استعمال عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے‘
20 نومبر 2017![Pakistan Islamabad - Islamisten Protestieren gegen Minister](https://static.dw.com/image/41329438_800.webp)
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر ان مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن نہ کیا گیا تو عدالت متعلقہ افسران کے خلاف توہین عدالت کے جرم کی کارروائی کرے گی۔ اسلام آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ نامی تنظیم نے گزشتہ دو ہفتوں نے مرکزی ہائی وے کو بلاک کر رکھا ہے۔
یہ مظاہرین وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر قانون کی جانب سے اس حلف نامے میں تبدیلی کی کوشش کی گئی جس پر انتخابات میں حصہ لینے والے حلف اٹھاتے ہیں۔ مظاہرین نے اس تبدیلی کو ناموس رسالت سے جوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حلف نامے میں نرمی اس لیے پیدا کی گئی تاکہ پاکستان کے اقلیتی گروہ احمدیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کو یقینی بنایا جا سکے۔
اسلام آباد کے ایک صحافی اعزاز سید نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ آج وزارت مذہبی امور میں ہونے والے مذاکرات میں دھرنہ کمیٹی کے ارکان اور حکومتی عہدیدار شامل تھے۔ اس اجلاس میں ایک اور کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔‘‘ اس اجلاس میں جاری اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’ پیر حسین الدین شاہ صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی جائے جو مختلف مسالک کی نمائندگی کرے اور وہ جلد ہی جامع حل تجویز کرے۔‘‘
کالم نگار زاہد حسین نے اے ایف پی کو بتایا،'' ایک جھوٹا خوف ہے کہ حالات قابو میں نہیں رہیں گے۔ حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہوگی اور ان کے خلاف ایکشن لینا ہوگا۔‘‘
تحریکِ لبیک پاکستان کا اسلام آباد دھرنا، نتیجہ کیا نکلے گا؟
’تحریک لبیک‘ کو مزید مہلت دے دی گئی
اعزاز سید کا کہنا ہے کہ حکومت عملی طور پر مولویوں کے ہاتھوں یرغمال بن گئی ہے۔ وہ حکومت سے وزیر قانون کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا یہ مطالبہ پورا کر کے ایک غلط مثال قائم ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ عدالت نے حکومت کو اس دھرنے کو ختم کرنے کے لیے تین دن کی مہلت دی ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ انہوں نے عدالت کو کہا ہے کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور طاقت کا استعمال ملک میں عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔