طالبان امریکا کے ساتھ اسلام آباد میں ملیں گے، ذبیح اللہ
14 فروری 2019
طالبان کے ترجمان کے مطابق افغانستان میں گزشتہ 17 برس سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے سلسلے میں طالبان کے نمائندے 18 فروری کو اسلام آباد میں امریکی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
اشتہار
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بات بدھ 13 فروری کی شب کہی۔ تاہم امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو ’’کسی بات چیت میں شرکت کے لیے کوئی باقاعدہ دعوت نامہ نہیں ملا‘‘۔
طالبان کے ترجمان کی طرف سے اعلان کردہ یہ مذاکرات طالبان اور امریکا کے نمائندوں کے درمیان قطر میں طے شدہ ملاقات سے ایک ہفتہ قبل ہو رہے ہیں۔ مجاہد کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں تاہم یہ کہا گیا ہے کہ قطر میں 25 فروری کو طے شدہ مذاکرات بھی شیڈول کے مطابق ہوں گے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ طالبان کے نمائندے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے بھی ملیں گے اور ’’پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر سیر حاصل گفتگو کریں گے۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں طالبان اور امریکا کے نمائندوں کے درمیان ملاقات کی بات کی گئی ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا یہ ملاقات افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد سے ہو گی یا نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی نصف تعداد کو واپس بلانے کے اعلان کے بعد زلمے خلیل زاد افغان طالبان کے ساتھ مسلسل مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ گزشتہ ماہ قریب ایک ہفتہ تک قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک رہے تھے جس کے بعد فریقین کی طرف سے اُن مذاکرات کو انتہائی حوصلہ افزا قرار دیا گیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق خلیل زاد نے قطر میں 25 فروری کو شیڈول مذاکرات سے قبل پاکستان کا دورہ بھی کرنا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران افغانستان میں امریکی سربراہی میں تعینات غیر ملکی افواج کی واپسی کے بارے میں کسی معاہدے سے قبل امریکا کی کوشش ہو گی کہ طالبان عسکریت پسندوں اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کیا جائے۔
طالبان یہ بات کئی مرتبہ دہرا چکے ہیں کہ وہ کسی بھی جنگ بندی معاہدے سے قبل افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کی مکمل واپسی چاہتے ہیں تاہم وہ ملک کی تعمیر نو کے لیے غیر فوجی بیرونی امداد کو خوش آمدید کہیں گے۔
ا ب ا / ع ح (روئٹرز، ڈی پی اے)
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.