افغان وزرات داخلہ اور مقامی رپورٹوں کے مطابق افغان صدر کی رہائش گاہ کے قریب راکٹ حملے کیے گئے ہیں۔ صدر محل کے قریب تین راکٹ ایک ایسے وقت ہر گرے، جب افغان صدر اشرف غنی دیگر اعلیٰ اہلکاروں کے ہمراہ عید نماز ادا کر رہے تھے۔
اشتہار
خبر رساں اداروں نے مقامی ذرائع اور صدر دفتر کے حوالے سے بتایا ہے کہ راکٹ گرنے کی گرجدار آواز کے باوجود اشرف غنی نے عبادت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ابھی تک کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
طالبان باغیوں کی طرف سے حالیہ عرصے میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافے کے بعد افغان دارالحکومت پر ہونے والا یہ پہلا راکٹ حملہ ہے۔ اس حملے میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اس تازہ حملے کے بعد افغان صدر غنی نے کہا، ''طالبان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ قیام امن کے لیے کوئی ارادہ یا نیت نہیں رکھتے ہیں۔‘‘
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
9 تصاویر1 | 9
کابل میں یہ راکٹ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب اس وسطی ایشیائی ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے عمل کے دوران طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ اپنے حملوں میں تیزی لا چکے ہیں۔
نئے نظام الاوقات کے مطابق اکتیس اگست تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ قبل ازیں منصوبہ تھا کہ افغانستان میں گزشتہ تقریبا بیس برس سے تعینات غیر ملکی افواج گیارہ ستمبر تک نکل جائیں گی۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ درجنوں عالمی وفودنے ایک روز قبل ہی طالبان سے اپیل کی تھی کہ وہ فوری طور پر اپنی پرتشدد کارروائیاں ترک کر دیں تاکہ وہ اپنے ان دعوؤں کو سچ ثابت کر سکیں کہ وہ افغان تنازعے کے اختتام اور افغانستان میں پائیدار امن چاہتے ہیں۔
ان وفود کے مشترکہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ طالبان کے حملے دراصل ان کے ایسے دعوؤں سے متصادم ہیں کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔