1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکراتی عمل جاری: کرزئی

10 مارچ 2013

افغان صدر حامد کرزئی نے انکشاف کیا ہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان خلیجی ریاست قطر میں مذاکراتی عمل جاری ہے۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان نے حامد کرزئی کے اس بیان کی تردید کر دی ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان باقاعدگی سے مکالمت جاری رہنے کے حوالے سے بیان افغان صدر حامد کرزئی کی جانب سے ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب نئے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کے پہلے دورہء افغانستان کے دوران دو بڑے خود کش حملے دیکھنے میں آئے۔ ان حملوں میں ڈیڑھ درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ چک ہیگل آج اتوار کو امریکی فوجی دستوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔

طالبان نے کرزئی کے بیان کو مسترد کر دیا ہےتصویر: Aref Karimi/AFP/Getty Images

افغان صدر حامد کرزئی نے خواتین کے بین الاقوامی دن کی مناسبت سے ملکی ٹیلی وژن پر تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا اور طالبان کے اعلیٰ نمائندوں کے درمیان باقاعدہ مذاکراتی عمل خلیجی ریاست قطر میں جاری ہے۔ کرزئی نے مزید انکشاف کیا کہ بعض یورپی ملکوں اور خلیجی ممالک میں امریکا اور طالبان کے درمیان بات چیت کے سلسلے میں ملاقاتیں روزانہ بنیادوں پر جاری ہیں۔ کرزئی نے ان یورپی اور خلیجی ممالک کے نام نہیں بتائے۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں اس دعوے کی تردید کر دی ہے۔ اس بیان میں طالبان کے ترجمان نے کہا کہ وہ کرزئی کے بیان کو پرزور انداز میں مسترد کرتے ہیں۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بات چیت میں تعطل پیدا ہونے کے بعد ان کے دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے کوئی مناسب پیش رفت ابھی تک نہیں ہو سکی۔ خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی بات چیت کو طالبان نے گزشتہ سال معطل کر دیا تھا۔ طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل جرمنی میں سن 2010 کے دوران خفیہ انداز میں شروع ہوا تھا۔

افغان صدر کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

کرزئی کے بیان اور طالبان کی طرف سے تردید کے حوالے سے امریکا یا امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ کابل میں قائم کرزئی حکومت افغانستان سے اگلے برس بین الاقوامی جنگی دستوں کے انخلاء سے قبل طالبان کو بات چیت کی میز پر لا کر کسی امن ڈیل کو حتمی شکل دینے کی شدید خواہش رکھتی ہے۔ خلیجی ریاست قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں امریکا بھی شورش زدہ ملک افغانستان کے لیے دیرپا امن کی راہ کسی سیاسی ڈیل کے ذریعے ہی ہموار کرنا چاہتا ہے۔ افغان حکومت ابھی تک طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکراتی عمل شروع نہیں کر سکی لیکن کرزئی حکومت ایسا کرنے کا ارادہ اور خواہش ضرور رکھتی ہے۔

گزشتہ روز کے خود کش حملوں کے حوالے سے افغان صدر کا کہنا تھا کہ یہ حملے بظاہر اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ افغانستان میں بین الاقوامی فوجی دستوں کی سن 2014 کے بعد کے عرصے کے لیے بھی ضرورت ہے۔ کرزئی کے مطابق عسکریت پسند ان حملوں سے کابل حکومت کو خوفزدہ کرنے کی کوششوں میں ہیں کہ اگر غیر ملکی فوجی موجود نہیں ہوں گے تو ایسے واقعات میں شدت اور تواتر دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔ کرزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی بھی ملک اگر افغانستان میں اپنی فوج رکھنا چاہتا ہے، تو ایسا ان شرائط کے تحت ہو گا جو افغانستان کی جانب سے پیش کی جائیں گی۔ کرزئی کے مطابق ان شرائط میں افغان ملکی قوانین، اقدار اور حاکمیت کا احترام لازمی ہو گا۔

(ah/mm(AP, Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں