1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتافغانستان

طالبان اور ایرانی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں شدت کیوں؟

29 مئی 2023

حالیہ چند دنوں سے طالبان اور ایرانی فورسز کے مابین سرحدی جھڑپوں میں شدت پیدا ہو چکی ہے جبکہ ہفتے کے روز کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ پانی کی تقسیم کے مسئلے پر شروع ہونے والا یہ تنازعہ دن بدن پھلیتا جا رہا ہے۔

Afghanistan | Taliban Kämpfer in Kabul
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance

حالیہ کچھ عرصے سے کابل اور تہران حکومت کے مابین تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں اور اس کے اثرات افغان ایران سرحد پر بھی نظر آتے ہیں۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی  اِرنا نے ملک کے ڈپٹی پولیس چیف جنرل قاسم رضائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ طالبان نے ہفتے کی صبح ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان اور افغان صوبے نمروز کی سرحد پر فائرنگ کی، جس کا ایران نے سخت جواب دیا ہے۔

دوسری جانب طالبان نے الزام عائد کیا ہے کہ پہلے فائرنگ ایرانی فورسز کی جانب سے کی گئی۔ طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ہفتے کی لڑائی میں ان کا ایک جبکہ ایران کے دو اہلکار مارے گئے ہیں۔  ان کے مطابق دونوں اطراف زخمیوں کی تعداد چار سے پانچ بنتی ہے۔

افغان طالبان حکمران ہلمند کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں، ایرانی صدر

دریں اثنا ایران کے نیم سرکاری انگریزی زبان کے اخبار تہران ٹائمز نے لکھا ہے کہ لڑائی میں تین ایرانی سرحدی محافظ مارے گئے ہیں۔

اِرنا نیوز ایجنسی نے لکھا ہے کہ افغانستان کے ساتھ میلک بارڈر کراسنگ، جو کہ ایک اہم تجارتی راستہ ہے، کو فائرنگ کے تبادلے  کے بعد سے بند کر دیا گیا ہے۔

تصویر: Fars

طالبان ترجمان کا کہنا  تھا، '' گزشتہ روز دونوں ممالک کے اعلی حکام کے درمیان رابطہ ہوا ہے اور اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔‘‘ افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے ایک بیان میں کہا ہے، ''جنگ اور منفی اقدامات کا بہانہ بنانا کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘

لڑائی کس قدر شدید تھی؟

صوبہ سیستان و بلوچستان کے حالات پر نگاہ رکھنے والی تنظیم 'حال وش‘ کے مطابق اس علاقے میں رہنے والے متعدد گھرانے تشدد کے خوف سے فرار ہو گئے ہیں۔ متاثرہ علاقے کی آن لائن پوسٹ کی گئیں مبینہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک دوسرے سے کم فاصلے سے مشین گنوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ 

بعدازاں حال وش نے ایک تصویر پوسٹ کی، جس میں مارٹر گولوں کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق لڑائی میں 'مارٹر گولے اور بھاری ہتھیار‘ استعمال کیے گئے ہیں۔ ایسی مصدقہ ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان مغربی ساختہ جنگی گاڑیاں لے کر سرحد پر پہنچے ہیں جبکہ ایرانی فورسز بھی مارٹر گولوں کا استعمال کر رہی ہیں۔

افغانستان اور ایران کے مابین پانی کا تنازع

یہ تازہ لڑائی ایک ایسے وقت ہوئی ہے، جب رواں ماہ کے شروع میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے طالبان کو خبردار کیا تھا کہ وہ دریائے ہلمند پر ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کریں۔ رئیسی کا تبصرہ ایران میں پانی کے بارے میں طویل عرصے سے جاری خدشات کے حوالے سے اب تک کے سخت ترین بیان تھا۔

تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق ایران میں گزشتہ 30 برسوں سے خشک سالی کا مسئلہ چلا آ رہا ہے لیکن گزشتہ دہائی کے دوران اس میں مزید شدت آئی ہے۔ ایران کے محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ملک کا 97 فیصد حصہ اب کسی نہ کسی سطح پر خشک سالی کا شکار ہے۔

طالبان کے ساتھ کئی دیگر اختلافات بھی

ایران نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو براہ راست تسلیم نہیں کیا لیکن اس کے افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات برقرار ہیں۔ تہران حکومت نے طالبان سے خواتین اور لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے۔طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ہفتے کے روز ایرانی حکام سے دریائے ہلمند کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے مذاکرات کرنے پر زور دیا ہے جبکہ ایران نے بھی یہ تنازعہ بات چیت سے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

مستقبل قریب کا افغانستان: پاکستان اور ایران کے خدشات

لیکن اس کے باجود ان دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں آن لائن پوسٹ کی گئی ایک اور ویڈیو میں مبینہ طور پر ایرانی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی دکھائی گئی ہے۔ یہ اس وقت شروع ہوئی جب ایرانی تعمیراتی کارکنوں نے سرحد کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ حالیہ دنوں میں طالبان کے حامی آن لائن اکاؤنٹس پر ایک ایسے ترانے کی ویڈیو بھی شیئر کی جا رہی ہے، جس میں قائم مقام وزیر دفاع ملا محمد یعقوب کو ایران کے سامنے ڈٹ جانے کا کہا جا رہا ہے۔ ملا یعقوب طالبان کے اولین سپریم لیڈر ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں۔

ا ا / ع س (اے پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں