طالبان اور کابل حکومت کے مابین براہ راست مذاکرات پر زور
11 جنوری 2016افغانستان میں امن عمل سے متعلق پاکستان، چین، افغانستان اور امریکا کے نمائندوں پر مشتمل چہار ملکی رابطہ کمیٹی کا پہلا اجلاس پیر کو اسلام آباد میں ہوا۔ اس اجلاس میں نائب افغان وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی پاکستان کے سکیرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری، افغانستان اور پاکستان کے لئے خصوصی امریکی مندوب رچرڈ اولسن اور چین کے افغانستان میں سفیر ڈنگ زی جن نے اپنے ممالک کی نمائندگی کی۔
اجلاس کے بعد جاری ہونیوالے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چاروں ممالک پر مستمل چہار فریقی گروپ نے کام کرنے کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے افغانستان میں امن اور مفاہمت کے عمل کے لئے اپنے باقاعدہ اجلاس جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق چار رکنی گروپ کا آئندہ اجلاس اٹھارہ جنوری کو کابل میں ہو گا، جس میں مستقبل کے لئے روڈ میپ پر بات چیت کی جائے گی۔
اجلاس میں افغانستان اور خطے میں دیر پا امن کے قیام کے حصول کے لئے افغان قیادت میں امن عمل کو سہولت مہیا کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں شامل چاروں ممالک کے نمائندوں نے افغانستان میں تشدد اور عدم تحفظ کے خاتمے کی اہمیت پر زور دیا۔
افغان امور کے ایک تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ اس اجلاس سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں تھی لیکن یہ بات خاصی اہم ہے کہ چاروں ممالک نے اب مسلسل ملاقاتوں پر اتفاق کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ "کچھ نہ کچھ پیشرفت تو ہوئی ہے، اتنا طویل اجلاس ہوا اور اس کے بعد روڈ میپ کے حوالے سے آئندہ اجلاس کی تاریخ بھی دے دی گئی تو میرے خیال میں ابھی یہ بھی کافی ہے۔"
طاہر خان کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان طالبان ان مذاکرات کے حوالے سے کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو افغان طالبان نے ان مذاکرات میں شامل ہونے کا عندیہ نہیں دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی طرف سے یہ کہنا کہ اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے دراصل اسی طرف ایک اشارہ ہے کہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے انہیں کسی بھی قسم کی کوئی رعایت دی جائے۔
اس سے قبل اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے کہاکہ افغان مصالحتی عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے پیشگی شرائط نہیں ہونی چاہئیں۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا کہ تمام طالبان گروہوں کو مذاکراتی عمل کی پیشکش اور ان کی جانب سے کسی جواب سے قبل فوجی کارروائیوں کی دھمکی مثبت قدم نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ آج کا اجلاس بہت اہم ہے، ’’اس گروپ کے سامنے سب سے اہم کام مجموعی طور پر مفاہمت کے عمل کی سمت کا تعین کرنا اس کے ساتھ ساتھ ایسے اہداف کا تعین ہے، جس کے تحت افغان حکومت اور طالبان گروہوں کے درمیان براہ راست بات چیت کے لئے ساز گار ماحول قائم کیا جاسکے۔"
اس اجلاس میں افغانستان میں مذاکرات کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے اور مذاکرات کو بامعانی طریقے سے آگے بڑھائے جانے کے حوالے سے روڈ میپ تیار کیا جائے گا۔
انہوں نے کہاکہ یہ اہم ہے کہ ان مواقع اور ممکنہ روکاٹوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تاکہ مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے میں آسانی ہو۔ انہوں نے کہا کہ مفاہمتی عمل کا اہم ہدف ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ طالبان گروہ مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں اور سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کو ترک کریں۔
سرتاک عزیز نے کہا کہ ’’بات چیت کے لئے تیار طالبان گروہ اور وہ جو اس پر تیار نہیں ہیں ان کے بارے میں تفریق کرنے اور مذاکرات کے لیے تیار نہ ہونے والے گروہوں سے کس طرح نمٹا جائے اس بارے میں فیصلہ اس وقت کیا جائے جب مذاکرات پر آمادہ کرنے کی تمام تر کوششیں کی جا چکی ہوں۔‘‘
خیال رہے کہ پاکستان کی میزبانی میں گزشتہ سال جون میں افغان طالبان اور حکومت کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں ہوئی تھی۔ ان مذاکرات میں پہلی مرتبہ امریکا اور چین کے نمائندوں نے بھی مبصر کے طور پر شرکت کی تھی۔ تاہم بعد میں افغان طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کی خبر کے بعد یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔
تاہم گزشتہ ماہ اسلام آباد میں منعقدہ ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس کے تحت کانفرنس کے موقع پر چہار فریقی مفاہمتی عمل کو بحال کرنے کے لیے کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
پاکستانی مشیر خارجہ کا کہنا ہے کہ مفاہمتی عمل کی کامیابی کے لئے اجتماعی کوششیں بروئے کار لانا ہوں گی۔ انہوں نے کہاکہ ’’ہمارے نزدیک مشترکہ ذمہ داری کے اصول کے تحت ہمارے درمیان مخصوص امور کی انجام دہی کی تقیسم مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے انتہائی اہم ہے۔