1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طالبان تنظیم پہلے دہشت گرد جماعت تھی اور اب سیاسی‘

Imtiaz Ahmad26 جون 2013

امریکا اور افغان حکومت نے ’نہ چاہتے ہوئے بھی‘ قطر میں طالبان کے دفتر کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن کیا امریکا اب افغانستان میں دیگر عسکری گروپوں کے ساتھ بھی مذاکرات کا آغاز کرے گا ؟

تصویر: Reuters

گزشتہ ہفتے دوحہ میں دفتر کا افتتاح تو کر دیا گیا ہے لیکن اس عمارت پر طالبان کا لہراتا ہوا پرچم اُتار دیا گیا۔ یہ اقدام افغان تنازعے کی اُس پیچیدگی کا بھی عکاس ہے، جس نے ابھی تک اس مذاکراتی عمل کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔

ابتدائی طور پر صدر کرزئی اس بات پر متفق تھے کہ طالبان خلیجی ریاست میں اپنا نمائندہ آفس کھول سکتے ہیں لیکن صدر کرزئی کے شدید غصے کا موجب طالبان کا وہ جھنڈا بنا، جو ’افغانستان اسلامی امارات‘ اور طالبان حکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ وہ نام اور وہ پرچم ہے، جو طالبان سن 1996ء سے 2001ء تک اپنے دور اقتدار میں استعمال کرتے آئے ہیں۔

تصویر: AFP/Getty Images

طالبان کے دفتر پر جھنڈے کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ قطر اور امریکا حکومت نے طالبان کو ایک جلاوطن حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ طالبان رہنماؤں اور ان کی آرگنائزیشن کو ایک دہائی تک دہشت گرد تنظیموں کی درجہ بندی میں رکھا گیا اور اب اچانک طالبان کو ایک سیاسی تنظیم کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے، جس کا بین لاقوامی سطح پر ایک دفتر بھی ہے۔

ان ابتدائی مشکلات کے باجود یہ واضح ہے کہ واشنگٹن، کابل اور طالبان امن مذاکرات کے آغاز پر متفق ہیں۔ برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک (Chatham House) کے تجزیہ کار میٹ والڈمین کے مطابق تینوں طاقتوں نے مذاکرات کے آغاز کے لیے اپنے موقف میں نرمی پیدا کی ہے، ’’امریکا نے اپنی وہ پہلی شرط ختم کر دی ہے کہ طالبان کو عوامی سطح پر القاعدہ کو مسترد کرنا ہوگا۔ افغان حکومت نے دوحہ کے دفتر کے بارے میں اپنے خدشات ختم کر دیے ہیں اور آخر کار طالبان نے اپنا وہ عوامی اعلان واپس لے لیا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کیے جائیں گے، اگرچہ کہ وہ ماضی میں کرزئی حکام سے ملتے رہے ہیں ۔‘‘

متنازعہ علامت

دوحہ میں طالبان آفس کی عمارت پر طالبان کا پرچم افغان تنازعے کے بنیادی مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جانا چاہیے کہ طالبان خود کو دوبارہ منظم کرتے ہوئے جائز حکومت کے طور پر کابل میں بیٹھنا چاہتے ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں میٹ والڈمین کہتے ہیں، ’’اگر طالبان واقعی مذاکرات کا آغاز اپنی حکومت کے دوبارہ قیام کے لیے کر رہے ہیں تو یہ امن مذاکرات زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں گے۔ مذاکرات اُسی صورت میں کامیاب ہوں گے اگر طالبان کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی ایسا امن معاہدہ کیا جا سکتا ہے، جس میں اقتدار کی شراکت داری بھی شامل ہو۔‘‘

تصویر: Reuters

والڈمین کہتے ہیں کہ طالبان کو اس حقیقت کا اندازہ ہے کہ وہ مسلح تصادم کے ذریعے، خاص طور پر شمالی اتحاد کے ساتھ، پورے افغانستان پر حکومت نہیں کر سکتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’طالبان کے عملی عناصر جان چکے ہے کہ سماجی خدمات اور بنیادی آزادیوں کے لحاظ سے افغان عوام کی توقعات تبدیل ہو چکی ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اکیلے ان توقعات کو پورا نہیں کر سکتے۔‘‘

جنگ سے تھکاوٹ

فریقین اب کیوں مذاکرات پر رضامند ہوئے ہیں؟ اس کی ایک یقینی وجہ اس عالمگیر جنگ سے تھکاوٹ ہے۔ میٹ والڈمین کے بقول امریکا واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے لیکن اس سے پہلے وہ اس تنازعے کو ختم کرنا چاہتا ہے، ’’افغان حکومت کی طرف دیکھا جائے تو اسے بھاری نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ ماہانہ کی بنیادوں پر 250 کے قریب سکیورٹی اہلکار مارے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان میں بھی کچھ عناصر ایسے ہیں، جو افغانستان کی تباہی پر رنجیدہ ہیں۔‘‘

یورپ کے ایک تھنک ٹینک (Carnegie Europe) سے وابستہ تجزیہ کار جوڈی ڈیمپسی کہتی ہیں، ’’ دس برس کی خوفناک لڑائی کے بعد حیران کن موڑ آیا ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئی ہیں اور دوسری طرف اسی نے افغان نوجوانوں اور خواتین کو آزادی اور اُمید کی کرنیں دکھائی تھیں۔ اب فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے۔ اب افغان عوام کو خود یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہیں کس راستے پر چلنا ہے۔ ‘‘

دیگر عسکری گروپوں سے مذاکرات

ڈیمپسی کے خیال میں باراک اوباما اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران افغان مسئلے کے حل کے لیے مزید سیاسی خطرات اٹھانے کے لیے تیار ہیں، دوسرے لفظوں میں وہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

ڈیمپسی کہتی ہیں کہ مذاکرات کا یہ مرحلہ مشکل بھی ہو سکتا ہے، ’’بہت سی چیزوں کا انحصار تو اس بات پر ہو گا کہ افغانستان میں لڑنے والے گروپوں کے نمائندے کون ہیں اور کہاں پر ہیں؟ مجھے یہ بھی نہیں لگتا کہ دنیا میں امریکا کے مذاکرات کار کے طور پر کردار کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ دوسری جنگوں کے برعکس اس میں یورپ سمیت کئی حصہ دار ہیں اور امریکا کو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔‘‘

میٹ والڈمین بھی ان مذاکرات کو شُبے کی نظر سے دیکھتے ہیں، ’’میرے خیال میں عسکری گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرنا امریکا کا حق ہے لیکن امریکا اکثر ایسا اپنے مفاد کے لیے کرتا ہے۔ میں ان مذاکرات کے بارے میں کچھ زیادہ پُر امید نہیں ہوں۔ جب مذاکرات کا اعلان عوامی سطح پر کر دیا جاتا ہےتو مختلف جماعتوں کو اپنے ووٹروں کے سامنے ایک مخصوص تصویر پیش کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، جو مذاکرات کیے لیے مددگار ثابت نہیں ہوتی۔ عوامی دباؤ فریقین کے مؤقف میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔‘‘

والڈمین کے بقول ہمیں مذاکرات کے بارے میں جس قدر کم علم ہو گا، اس قدر ہی یہ کامیاب رہیں گے۔

Ben K, ia / Rob M, ab

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں