طالبان حکومت میں افغان صحافیوں سے زیادتیوں کا سلسلہ جاری
4 اکتوبر 2024
بتایا جاتا ہے کہ حملوں یا خواتین سے متعلق موضوعات کی رپورٹنگ کرنے پر افغان صحافیوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور جیل میں بعض اوقات داعش کے عسکریت پسندوں کے ساتھ ہی کوٹھریوں میں رکھا جاتا ہے۔
اشتہار
افغان صحافیوں نے طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے تشدد اور من مانی حراست کے ساتھ ساتھ سنسرشپ کو سخت کرنے سمیت سرکاری اہلکاروں کی طرف سے بدسلوکی کے سینکڑوں واقعات کی اطلاع دی ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں عسکریت پسند گروپوں کے حملوں کی خبریں شائع کرنے یا خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں لکھنے کے لیے اکثر گرفتار کرلیا جاتا ہے اور کچھ رپورٹوں کے مطابق انہیں داعش کے عسکریت پسندوں کے ساتھ ہی جیل کی کوٹھریوں میں رکھا جاتا ہے۔
شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی، جنہیں حال ہی میں حراست میں لیا گیا تھا اور مارا پیٹا گیا تھا، نے کہا، "کسی اور پیشے کی اتنی تذلیل نہیں کی جاتی۔"
انہوں نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا "میں اور میرے دوست اب اس پیشے کو جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ روز بروز نئی پابندیوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا "اگر ہم حملوں یا خواتین سے متعلق موضوعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں تو ہمیں فون کے ذریعے دھمکیوں یا حراست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔"
صحافیوں کی تعداد میں مسلسل کمی
جب طالبان نے 2021 میں اقتدار پر دوبارہ قبضہ کیا تو افغانستان میں 8,400 میڈیا ملازمین تھے جن میں 1,700 خواتین تھیں۔ میڈیا انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق، اب اس پیشے میں صرف 5,100 افراد رہ گئے ہیں، جن میں خواتین کی تعداد صرف 560 ہے۔
افغانستان میں صحافیوں کی ایک انجمن کے ایک عہدیدار سمیع اللہ (سکیورٹی وجوہات کی بنا پر جن کا نام تبدیل کیا گیا ہے) نے کہا، "سابقہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے صحافیوں کے خلاف، زیادتیوں کے تقریباً 450 واقعات درج کیے گئے ہیں، جن میں گرفتاریاں، دھمکیاں، من مانی حراست، جسمانی تشدد، اذیت شامل ہیں۔"
طالبان حکام نے ان خبروں پر تبصرہ کرنے کی متعدد درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ تاہم نائب وزیر اطلاعات حیات اللہ مہاجر فراہی نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ میڈیا کو افغانستان میں اس شرط پر کام کرنے کی اجازت دی گئی کہ وہ "اسلامی اقدار، ملک کے اعلیٰ مفاد، اس کی ثقافت اور روایات" کا احترام کریں۔
اخبار ہو یا انٹرنیٹ، دنیا بھر میں صحافت خطرے میں
04:23
پابندیوں کا سلسلہ جاری
میڈیا ایگزیکٹیوز نے اے ایف پی کو بتایا کہ ستمبر میں سیاسی ٹاک شوز پر نئے ضابطے نافذ کردئے گئے۔ ان میں مہمانوں کا انتخاب طالبان کی منظور شدہ فہرست سے کرنا اور صرف ان موضوعات پر گفتگو کرنا شامل ہیں جن کی منظوری طالبان حکام نے دی ہے جب کہ حکومت پر تنقید ممنوع ہے۔ شوز کو لائیو نشر نہیں کیا جانا چاہیے، تاکہ ریکارڈنگ کی جانچ پڑتال کی جا سکے اور "کمزور پوائنٹس" کو حذف کیا جا سکے۔
ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹیشن آر ٹی اے اب خواتین کو بطور صحافی کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
جنوبی صوبہ ہلمند میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر خواتین کی آواز پر پابندی ہے۔ سوشل نیٹ ورکس پر صحافیوں کی نگرانی جاری ہے اور پریس خود سنسر شپ پر مجبور ہے۔
لندن میں قائم افغانستان انٹرنیشنل چینل، جس کے لیے اب کسی افغان کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، نے ستمبر میں کابل پر الزام لگایا کہ وہ اس کی فریکوئنسی کو جام کر رہا ہے۔
"اچھائیوں کے فروغ اور برائی کی روک تھام" کے بارے میں ایک حالیہ سخت اسلامی قانون نے صحافیوں کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ یہ قانون انسانوں اور جانداروں کی تصویریں اتارنے اور خواتین پرعوام میں اونچی آواز میں بات کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔
صحافت: ایک خطرناک پیشہ
رواں برس کے دوران 73 صحافی اور میڈیا کارکنان قتل کیے گئے۔ یہ تمام جنگی اور تنازعات کے شکار علاقوں میں رپورٹنگ کے دوران ہی ہلاک نہیں کیے گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
وکٹوریہ مارینوا، بلغاریہ
تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک اسکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ ایک پروگرام کیا تھا۔
تصویر: BGNES
جمال خاشقجی، سعودی عرب
ساٹھ سالہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے لیکن باہر نہ نکلے۔ سعودی حکومت کے سخت ناقد خاشقجی اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ وہ اپنی طلاق کے کاغذات کی تیاری کے سلسلے میں قونصلیٹ گئے تھے جبکہ ان کی منگیتر باہر گیارہ گھنٹے انتظار کرتی رہیں لیکن خاشقجی باہر نہ آئے۔ واشنگٹن پوسٹ سے منسلک خاشقجی نے کہا تھا کہ ریاض حکومت انہیں قتل کرانا چاہتی ہے۔
تصویر: Reuters/Middle East Monitor
یان کوسیاک اور مارٹینا کسنیروا، سلوواکیہ
تحقیقاتی صحافی یان کوسیاک اور ان کی پارٹنر مارٹینا کسنیروا کو فروری میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کا الزام ایک سابق پولیس اہلکار پر عائد کیا گیا۔ اس واردات پر سلوواکیہ بھر میں مظاہرے شروع ہوئے، جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑ گیا۔ کوسیاک حکومتی اہلکاروں اور اطالوی مافیا کے مابین مبینہ روابط پر تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Voijnovic
دافنہ کورانا گالیزیا، مالٹا
دافنہ کورانا گالیزیا تحقیقاتی جرنلسٹ تھیں، جنہوں نے وزیر اعظم جوزف مسکوت کے پانامہ پیپرز کے حوالے سے روابط پر تحقیقاتی صحافت کی تھی۔ وہ اکتوبر سن دو ہزار سترہ میں ایک بم دھماکے میں ماری گئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L.Klimkeit
وا لون اور چُو سو او، میانمار
وا لون اور چُو سو او نے دس مسلم روہنگیا افراد کو ہلاکت کو رپورٹ کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں دسمبر سن دو ہزار سترہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انتالیس عدالتی کارروائیوں اور دو سو پیسنٹھ دنوں کی حراست کے بعد ستمبر میں سات سات سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سن انیس سو تئیس کے ملکی سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تھی۔
تصویر: Reuters/A. Wang
ماریو گومیز، میکسیکو
افغانستان اور شام کے بعد صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک میکسیکو ہے۔ اس ملک میں سن دو ہزار سترہ کے دوران چودہ صحافی ہلاک کیے گئے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں دس صحافیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 35 سالہ ماریو گومیز کو ستمبر میں ان کے گھر پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومتی اہلکاروں میں بدعنوانی کی تحقیقات پر انہیں جان سے مارے جانے کی دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
سمین فرامارز اور رمیز احمدی، افغانستان
ٹی وی نیوز رپورٹر سیمین فرامارز اور ان کے کیمرہ مین رمیز احمد ستمبر میں رپورٹنگ کے دوران کابل میں ہوئے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ افغانستان صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو، برازیل
برازیل میں بدعنوانی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ ریڈیو سے وابستہ تحقیقتاتی صحافی مارلون ڈی کارواہلو آراؤجو حکومتی اہلکاروں کی کرپشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے تھے۔ انہیں اگست میں چار مسلح حملہ آوروں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Sa
شجاعت بخاری، کشمیر
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں فعال معروف مقامی صحافی شجاعت بخاری کو جون میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بخاری کو دن دیہاڑے سری نگر میں واقع ان کے دفتر کے باہر ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے بھی منسلک رہ چکے تھے۔
تصویر: twitter.com/bukharishujaat
دی کپیٹل، میری لینڈ، امریکا
ایک مسلح شخص نے دی کپیٹل کے دفتر کے باہر شیشے کے دروازے سے فائرنگ کر کے اس ادارے سے وابستہ ایڈیٹر وینڈی ونٹرز ان کے نائب رابرٹ ہائیسن، رائٹر گیرالڈ فشمان، رپورٹر جان مک مارا اور سیلز اسسٹنٹ ریبیکا سمتھ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حملہ آور نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر رکھا تھا، جو جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔