طالبان رہنماوٴں کو امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے:ملک
20 فروری 2010![](https://static.dw.com/image/5170312_800.webp)
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے جمعہ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ یہ ثابت ہونے پر کہ ان طالبان کمانڈروں نے پاکستان کی سرزمین پر کوئی مجرمانہ فعل یا دہشت گردانہ کارروائی نہیں کی ہے تو انہیں پاکستان میں نہیں رکھا جائے گا۔’’گرفتار ہونے والے ان طالبان کمانڈروں کو افغانستان کے حوالے کرنے سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ کہیں انہوں نے پاکستان میں کسی قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی ہے یا کسی دہشت پسندانہ حملے کی منصوبہ بندی تو نہیں کی ہے۔‘‘
رحمان ملک نےکہا کہ اگر ان عسکریت پسندوں نے کوئی قانون توڑا ہے تو ان کے خلاف پاکستانی قانون کے مطابق مناسب کارروائی کی جائے گی۔ پاکستانی وزیر داخلہ نے تاہم یہ واضح کردیا کہ گرفتار شدہ ان طالبان رہنماوٴں کو ہرگز امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ رحمان ملک نے مزید کہا کہ حکام طالبان کمانڈرملا عمر کے قریبی ساتھی ملا برادر سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
امریکہ کی مرکزی انٹیلی جینس ایجنسی ’سی آئی اے‘ اور پاکستانی حکام نے ایک مشترکہ کارروائی میں ملا برادر کو تقریباً دو ہفتے پہلے پاکستان کے بندرگاہی شہر کراچی سے گرفتار کیا تھا۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے افغان طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر کی گرفتاری کو ایک اہم کامیابی قرار دیا تھا۔
پاکستانی حکام یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ ملا برادر کے علاوہ افغان طالبان کے دو اور اہم کمانڈر بھی پاکستان سے گرفتار کئے گئے ہیں اور یہ کہ پوچھ گچھ کے دوران ان سے اہم معلومات ملنے کی توقع ہے۔
حکام نے گرفتار کئے جانے والے ان عسکری کمانڈروں کی شناخت بطور حمزہ اور ابو ریاض زرقاوی کی ہے۔ حمزہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے دور حکومت میں افغان صوبے ہلمند میں فوج کا ایک اہم کمانڈر رہ چکا ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: ندیم گِل