طالبان سے بات چيت کے ليے پاکستان ناگزير ہے
13 ستمبر 2011يہ پلان بہت معقول نظر آتا تھا: نيٹو نے افغانستان ميں اپنی فوج ميں مزيد اضافہ کر ديا اور اس طرح طالبان پر فوجی دباؤ بڑھا ديا۔ اس کے ساتھ ہی يہ طے کيا گيا کہ افغان حکومت طالبان سے امن مذاکرات شروع کرے گی۔ افغان صدر حامد کرزئی نے جون سن 2010 ميں اپيل کی تھی: ’’عزيز برادر طالبان، ہم سب افغان ہيں، آئيے ہم مل جل کر افغانستان کی تعمير نو کريں۔‘‘
ليکن ايسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ايک سال گذرنے کے بعد بھی طالبان کے چوٹی کے رہنماؤں اور افغان حکومت کے درميان بات چيت تو کجا براہ راست روابط تک بھی نہيں ہيں۔ طالبان کے ايک سابق عہديدارعبدالسلام سيف نے کہا: ’’ہم افغان حکومت سے نہيں بلکہ زيادہ سے زيادہ صرف نيٹو سے بات چيت کرنا چاہتے ہيں۔ اصل مسئلہ تو يہ غير ملکی فوجی ہی ہيں، جو طالبان کے مخالفين ہيں۔اس ليے بات تو انہی سے ہونا چاہيے۔‘‘
ليکن کرزئی حکومت اور اُس کے ساتھيوں کے ليے وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ افغان صحافی فہيم دشتی کا کہنا ہے کہ باغی طالبان بھی اسے اچھی طرح جانتے ہيں: ’’طالبان کو يقين ہے کہ وہ سن 2014 کے بعد دو تين برسوں ميں افغانستان پر قبضہ کر ليں گے۔ تو پھر وہ بات چيت کيوں کريں، جب تک اُن کی پوزيشن طاقتور ہے؟‘‘
دشتی نے کہا کہ طالبان کو جمہوريت سے کوئی دلچسپی نہيں اور وہ اپنے پرانے اسلامی نظام ہی کو واپس لانے کے ليے کوشاں ہيں۔
طالبان کو مذاکرات کی ميز پر لانے کے ليے غير ملکی دباؤ کے بغير کوئی اور چارہ نظر نہيں آتا۔ برطانيہ کے سابق سفير برائے افغانستان شيرارڈ کاؤپر نے کہا: ’’پاکستان کو اس عمل ميں شامل کرنا ضروری ہے کيونکہ طالبان کو فوج کی اجازت سے پاکستان ميں پناہ ملی ہے اور پاکستان طالبان پر دباؤ ميں اضافہ کر سکتا ہے۔‘‘
تاہم پاکستان کی حربی دفاعی حکمت عملی کا انحصار داخلی سياسی جوڑ توڑ اور اُس کے مخالف بھارت کے ساتھ تعلقات پر ہے۔ اس طرح طالبان کے قائد ملا عمر کو مزيد مہلت ملتی جا رہی ہے۔
امريکہ کی رضامندی سے اس سال کے آخر تک خليجی رياست قطر ميں طالبان کا ايک سياسی دفترکھلنے کی اطلاعات بھی ہيں۔
رپورٹ: زبينے ماتھائی، دہلی / شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی