’طالبان سے بچنے کی کوشش کرنے والے افغانوں کو چھوڑ دیا گیا‘
17 ستمبر 2021
انسانی حقوق اور مہاجرین کی بہبود کے گروپوں نے یورپی یونین پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اس نے طالبان سے بچنے کے لیے افغانستان سے نکلنے کی کوشش کرنے والے افغانوں کی مناسب مدد نہیں کی۔
جمعرات 16 ستمبر کو یورپی یونین کی سیاسی پناہ سے متعلق ایجنسی کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افغان حکومت کے خاتمے سے قبل وہاں کے شہریوں کی طرف سے سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد رواں برس جولائی میں 7,300 تھی۔ یہ تعداد جون کے مقابلے میں 21 فیصد زائد تھی اور مسلسل پانچواں ماہ تھا جب افغان شہریوں کی طرف سے سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس رپورٹ میں تاہم یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغان باشندوں کی طرف سے جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستوں میں سے نصف سے زائد کو رد کر دیا گیا۔
24 غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے، جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، کاریتاس یورپ، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی، آکسفیم اور ریڈ کراس بھی شامل ہیں، جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، ''یورپی یونین کو افغانستان سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھانے میں کمی کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کرنا چاہیے۔‘‘
پاکستان اور ایران میں افغان مہاجرین
اس گروپ نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان میں 18 ملین افراد کو انسانی بنیادوں پر فوری امداد کی ضرورت ہے۔ یہ افغانستان کی مجموعی آبادی کا قریب نصف بنتا ہے۔ چھ لاکھ 30 ہزار افراد تشدد یا پھر خشک سالی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance / newscom
11 تصاویر1 | 11
یورپی یونین کی طرف سے اس معاملے پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم یورپی یونین کے اعلٰی حکام کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافے کے باوجود افغانستان سے ہزاروں باشندوں کی یورپی یونین آمد کا فوری طور پر کوئی خدشہ موجود نہیں۔ افغانستان سے نکلنے والے زیادہ تر افغان باشندے ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ تاجکستان میں بھی موجود ہیں۔
'افغانوں کو محفوظ راستہ مہیا کیا جائے‘
اس کے باوجود بعض یورپی حکومتوں کی طرف سے اس بات پر شدید تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ 2015ء کی طرح کہیں ایک بار پھر بڑی تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن یورپ کا رُخ نہ کر لیں۔ اُس وقت ایک ملین سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن مختلف یورپی ممالک میں پہنچے تھے، اور یہ صورتحال یورپ میں کئی سیاسی تنازعات پیدا کرنے کا بھی سبب بنی تھی۔
24 غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری ہونے والے بیان میں یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ اپنے تحفظ کے لیے افغانستان سے نکلنے کی کوشش میں مصروف افغانوں کو محفوظ راستہ مہیا کیا جائے اور ایران اور پاکستان میں پناہ لیے ہوئے اس افغانوں کو یورپ میں لا کر بسانے کا پروگرام شروع کرنا چاہیے۔