طالبان سے مذاکرات: پاک فوج کے تحفظات
10 جولائی 2013پاکستان کی خوبصورت وادیء سوات گذشتہ کچھ برسوں سے مسائل کا شکار رہی ہے۔ پہلے کچھ وقت کے لیے یہ وادی اسلامی شدت پسندوں کے قبضے میں رہی، جس کے بعد انہیں وہاں سے نکالنےکے لیے فوجی آپریشن کیا گیا۔ اس دوران مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر رہی سہی کسر سن 2010ء میں آنے والے سیلاب نے نکال دی، جو ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور باغات بہا کر لے گیا۔
گذشتہ برس یہ خوبصورت وادی اس وقت عالمی خبروں کا موضوع بنی، جب شدت پسندوں نے ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اب جب کہ وہاں زندگی پھر سے معمول پر آنا شروع ہوئی ہے، تو ایک بار پھر طالبان سے مذاکرات کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں۔ مقامی آبادی 2009ء میں ہونے والے مذاکرات اور اس کے بعد سوات پر طالبان کے قبضے کو بھول نہیں پائی ہے۔ پاکستانی فوج پر بھی طالبان سے مذاکرات کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں مئی کے مہینے میں منتخب ہونے والی سیاسی قیادت پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کا موقف ہے کہ لوگ روز روز ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے تنگ آ چکے ہیں۔
پاکستان کی فوج طالبان کے ساتھ بات چیت کی حامی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے ہزاروں سپاہی گنوا چکی ہے۔ فوجی قیادت کا خیال ہے کہ طالبان جنگجوؤں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ سوات کے کئی رہائشی بھی اس حوالے سے پاکستانی فوج کے ہم خیال ہیں۔
سوات کے ایک رہائشی عبدالرحمٰن نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’طالبان پاکستان کے قانون کو نہیں مانتے، وہ آئین پاکستان کے وفادار نہیں، ایسے میں کس طرح ایک سیاسی جماعت ان کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے‘‘۔ ہم نے پہلے بھی عسکریت پسندوں کو اپنے علاقوں سے نکلنے پر مجبور کیا اور پھر پاک فوج کی مدد سے ان کے خلاف جدوجہد کی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
پاکستان میں طالبان سے مذاکرات کے موضوع کو آج کل مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ان مذاکرات کی اہمیت سن 2014 میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے تناظر میں اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ امریکی افواج وہاں قریب 12 برس تک افغان طالبان کے خلاف برسر پیکار رہنے کے بعد واپس لوٹ رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستانی فوج کو افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں فرق کرنا مشکل نظر آ رہا ہے کیونکہ ان کے نزدیک پاکستانی اور افغان طالبان کے آپس میں گہر ے روابط ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور ان کے مد مقابل ایک اہم رہنما عمران خان نے اپنی اپنی انتخابی مہم کے دوران طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ نواز شریف مرکز میں حکومت میں ہیں اور عمران کی جماعت صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت میں ہے۔ وہاں کے صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے حالیہ دنوں میں اپنے دورہ پشاور کے دوران کہا، ’’امریکا قطر میں طالبان کا دفتر کھول رہا ہے اور ان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر رہا ہے اور ہمیں کہا جا رہا ہے، لڑتے مرتے رہو۔ ہم گذشتہ نو برس سے قیام امن کے لیے فوج پر بھروسہ کرریے ہیں لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اب یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں‘‘۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق جون میں پاکستانی طالبان کے اس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا، ’’جب ہم محسوس کریں گے کہ نواز شریف یا عمران مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہیں اور وہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی مخالفت مول لے سکتے ہیں تو ہم مذاکرات پر غور کریں گے۔‘‘
پاکستان میں مئی ہونے والے عام انتخابات سے کچھ روز قبل پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا تھا کہ جب تک طالبان ہتھیار نہیں پھینکتے اور پاکستانی قانون کو تسلیم نہیں کرتے، ان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
سوات کے مقامی لوگوں کے پاس طالبان پر اعتبار نہ کرنے کے لیے بہت سے جواز موجود ہیں۔ ان کہنا ہے کہ سن 2009ء میں طالبان نے مذاکرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف سوات پر قبضہ کر لیا تھا بلکہ اپنا اثر اردگرد کے علاقوں میں بھی بڑھانا شروع کر دیا تھا اور پاکستانی دارالحکومت سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی فوج کو طالبان کو نکالنے کے لیے ایک بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کرنا پڑا تھا۔ اس دوران دو ملین کے قریب لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔