1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان سے مذاکرات کی کمیٹی پر تنقید

فرید اللہ خان، پشاور30 جنوری 2014

پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کردہ کمیٹی سے جہاں بہت سے لوگوں نے امیدیں وابستہ کی ہیں وہاں بعض سیاسی اور قبائلی رہنما اس سے مطمئن نہیں ہیں۔

تصویر: DW/Adnan Gran

قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ جنگ تو ان کے علاقے میں جاری ہے اور گزشتہ ایک دہائی سے وہ بری طرح متاثر بھی ہو رہے ہیں لیکن اس مذاکراتی کمیٹی میں نمائندگی کے سلسلے میں انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

قبائلی عمائدین کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے بعض سینئر رہنما بھی اس بارے میں حکومتی کوششوں پر مطمئن نہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی حمایت اللہ مایار نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جب بھی امن معاہدے ہوئے، عسکریت پسندوں ان کی خلاف ورزی کی اور مذاکرات کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈالیں۔

انہوں نے کہا، ’’ہم بھی مذاکرات اور امن معاہدوں کے ذریعے امن کے خواہاں ہیں لیکن ماضی میں جتنے بھی معاہدے ہوئے، ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ نئی کمیٹی میں اچھے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ارکان تمام گروپوں پر اثر انداز ہوسکیں گے؟ حکومت کو چاہیے تھا کہ کمیٹی میں ملکی اور غیر ملکی شہرت کی حامل دینی اور سیاسی شخصیات کو شامل کیا جاتا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’کمیٹی کے اختیارات کا بھی کوئی پتہ نہیں۔ امن کے لیے کئی معاہدے ہوئے۔ لیکن ان معاہدوں کے دوران عسکریت پسند اپنی کارروائیوں کے لیے مزید تیاری کرتے ہیں اور پھر حالات میں مزید شدت آ جاتی ہے۔ اس صورت حال کا واحد حل آپریشن ہے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ٹیم کا اعلان ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن دوسری جانب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاید حکومت نے بدنامی سے بچنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے، جو حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر آخری پیشکش ہو سکتی ہے۔

مذاکرات کے لیے وفاقی حکومت نے چار رکنی کمیٹی قائم کی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

اس مذاکراتی ٹیم کی کامیابی کا انحصار اس کو دیے جانے والے مینڈیٹ اور اختیارات پر ہوگا، کیونکہ پاکستان میں ایک عشرے سے جاری دہشت گردی پر قابو پانا ناممکن نہیں تو ایک مشکل کام ضرور ہے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں عوام، بالخصوص قبائلی علاقوں کے عوام نے دی ہیں۔ لیکن کمیٹی کی تشکیل میں اس مرتبہ بھی قبائلی عوام کی نمائندگی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابق رکن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر اخونزادہ چٹان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’قبائلی عمائدین اور منتخب ارکان پارلیمان ایک عرصے سے اپنے اپنے علاقوں میں قیام امن کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں ان قبائلی عمائدین، سیاسی قائدین اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام نہیں کیا گیا۔ مقامی طور پر یہ لوگ جو کوششیں کر رہے ہیں، اگر حکومت اور یہ حلقے مل کر کا م کریں، تو دور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے دوران فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کی طویل فہرست کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا مذاکراتی ٹیم کو دیے گئے مینڈیٹ اور اختیارات کو ان اداروں کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل ہونی چاہیے۔

کئی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن،طالبان کی جانب سے خود کش حملوں اور ڈرون طیاروں کے حملوں میں سے اگر کوئی ایک کام بھی جاری رہا تو مذاکرات کے ذریعے امن کی کاوشیں بےسود ہوں گی۔

وزیر اعظم نواز‍ شریف کی تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹی کے چار ارکان میں دو کا تعلق خیبر پختونخوا، ایک کا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور ایک کا تعلق پنجاب سے ہے۔ کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ یہ ایک رابطہ کمیٹی ہے۔ اس سے کم سے کم توقعات وابستہ کی جائیں کیونکہ ماضی کے امن معاہدے سب کے سامنے ہیں اور اصل مذاکرات اور فیصلے تو حکومت نے ہی کرنا ہیں۔ ان کے بقول یہ کمیٹی زیادہ تر اعتماد سازی کا کام کرے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں