1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقافغانستان

طالبان سے منحرف آخری تسلیم شدہ افغان خاتون سفیر کون؟

شکور رحیم اے ایف پی
1 نومبر 2025

ویانا میں مقیم منیزہ بختاری کا کہنا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو جائز تسلیم نہیں کرتیں۔ وہ اس وقت دنیا میں تسلیم شدہ آخری افغان خاتون سفیر ہیں اور انہی پر بنائی گئی ایک آسٹریائی دستاویزی فلم سینماؤں میں دکھائی جا رہی ہے۔

منیزہ بختری گزشتہ چار سال سے زیادہ عرصے سے آسٹریا میں افغانستان کی سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں
منیزہ بختری گزشتہ چار سال سے زیادہ عرصے سے آسٹریا میں افغانستان کی سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیںتصویر: Joe Klamar/AFP/Getty Images

طالبان حکومت کی مخالفت کے باوجود  منیزہ بختاری گزشتہ چار سال سے زیادہ عرصے سے آسٹریا میں افغانستان کی سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کابل حکام نے انہیں ہٹانے اور اپنی پسند کا سفارتکار تعینات کرنے کی کوشش کی، مگر بختری نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا۔

اے ایف پی سے گفتگو میں 53  سالہ بختاری نے بتایا، ''جب مجھے طالبان کا برطرفی کا خط ملا تو میں نے اسے محض ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔ میں طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت نہیں مانتی اور نہ ہی آسٹریا انہیں تسلیم کرتا ہے۔‘‘

53  سالہ بختاری کے مطابق انہوں نے طالبان کی جانب سے موصول ہونے والا اپنی برطرفی کا خط محض ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر نظرانداز کر دیاتصویر: Joe Klamar/AFP/Getty Images

آسٹریا نے اب تک طالبان کے مقرر کردہ سفارتکاروں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، حالانکہ رواں سال آسٹریا نے افغان شہریوں کی ملک بدری کے معاملے پر طالبان حکام سے براہِ راست بات چیت کی تھی۔

آسٹریا کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''منیزہ بختاری تاحال آسٹریا میں افغانستان کی سفیر اور بین الاقوامی اداروں کے لیے مستقل نمائندہ کے طور پر تسلیم شدہ ہیں۔‘‘

ان کا سفارتخانہ محدود قونصلر خدمات فراہم کر رہا ہے، جیسے پاسپورٹ کی توسیع وغیرہ۔ وہ اس وقت دنیا میں تسلیم شدہ آخری افغان خاتون سفیر ہیں اور انہی پر بنائی گئی ایک آسٹریائی دستاویزی فلم سینماؤں میں دکھائی جا رہی ہے۔

تاہم فلم کے بعد انہیں شدید تنقید اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پیغامات اور حتیٰ کہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ بختاری کے بقول، ''وہ مجھے گالیاں دیتے ہیں، مغربی اقدار اپنانے والی عورت کہتے ہیں، مگر میں پروا نہیں کرتی۔‘‘

بختاری پیشے کے لحاظ سے صحافی رہ چکی ہیں اور 2007ء سے 2009ء تک افغان وزارتِ خارجہ کی چیف آف اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیںتصویر: Miguela Xuereb/AP Photo/picture alliance

انہوں نے طالبان کی موجودہ پالیسیوں کو سخت گیر قرار دیتے ہوئے کہا، "انہوں نے عورتوں، مردوں، اظہارِ رائے اور میڈیا،  سب کے لیے ظالمانہ پالیسیاں اپنائی ہیں۔‘‘

بختاری پیشے کے لحاظ سے صحافی رہ چکی ہیں اور 2007ء سے 2009ء تک افغان وزارتِ خارجہ کی چیف آف اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مشن افغان خواتین اور لڑکیوں کی مدد کرنا ہے، جنہیں طالبان نے سماج سے ''نظام کے تحت مٹانے‘‘ کی کوشش کی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق طالبان نے ''صنفی امتیاز پر مبنی نظام‘‘ قائم کر رکھا ہے، جس میں12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے اسکول جانے، کام کرنے اور عوامی مقامات پر جانے پر پابندی  ہے۔ بختاری نے ''ڈاٹرز‘‘نامی ایک پروگرام شروع کیا ہے، جس کے ذریعے افغان لڑکیوں کو خفیہ یا آن لائن تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ طالبان کا خواتین کے خلاف جبر افغانستان تک محدود نہیں رہا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں بھارت کے دورے کے دوران طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کو تنقید کے بعد خواتین صحافیوں کے بغیر کی گئی پریس کانفرنس دوبارہ کرنی پڑی۔ ''وہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ یہ نئے طالبان ہیں، مگر حقیقت مختلف ہے، وہ جہاں جاتے ہیں، اپنی عورت مخالف پالیسی ساتھ لے جاتے ہیں۔‘‘

ختاری نے ''ڈاٹرز‘‘نامی ایک پروگرام شروع کیا ہے، جس کے ذریعے افغان لڑکیوں کو خفیہ یا آن لائن تعلیم فراہم کی جاتی ہےتصویر: Hans Punz/APA/picture alliance

بختاری، جو معروف افغان شاعر واصف بختاری کی صاحبزادی ہیں، کہتی ہیں، ''اگر افغانستان میں خواتین پر ظلم جاری رہا تو اس کا اثر دنیا بھر کی عورتوں پر پڑے گا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان ہر نئے اقدام سے یہ پرکھ رہے ہیں کہ وہ کہاں تک جا سکتے ہیں۔ ستمبر میں انہوں نے عارضی طور پر انٹرنیٹ بند کیا مگر پروازوں کی منسوخی کے بعد انہیں احساس ہوا کہ یہ ممکن نہیں۔

حال ہی میں طالبان کے کچھ نمائندے آسٹریا کی وزارتِ داخلہ سے ایک افغان شہری کی ملک بدری کے معاملے پر ملاقات کے لیے ویانا آئے، مگر بختاری کے مطابق ''وہ مجھ سے ملنے نہیں آئے۔ طالبان کسی عورت سے بات نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''میں ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہوں، اگر وہ پرامن مکالمہ چاہتے ہیں۔‘‘

ادارت: کشور مصطفیٰ

افغان لڑکیاں ذہنی مسائل کا شکار کیوں؟

04:46

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں