افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والی تاریخی ڈیل کے تحت پانچ ہزار زیر حراست طالبان کی رہائی کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ البتہ سات روزہ جزوی فائر بندی پر عمل کیا جائے گا۔
اشتہار
امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والی اس ڈیل پر دستخطوں کے ایک دن بعد آج اتوار یکم مارچ کو افغان صدر اشرف غنی نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ طالبان اور امریکا کے مابین براہ راست مذاکرات کو طالبان کی رہائی سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا اور طالبان کے مابین ہفتہ انتیس فروری کو طے پانے والی تاریخی امن ڈیل میں قیدیوں کی دوطرفہ رہائی ایک اہم نکتہ ہے۔
اس ڈیل میں طالبان کی حراست میں ایک ہزار افغان سرکاری اہلکاروں کو آزاد کرنے کے بدلے افغان جیلوں میں قید پانچ ہزار طالبان کو رہا کر دینے کی بات بھی کی گئی ہے۔ اس ڈیل کو حتمی شکل دیتے ہوئے طالبان کا یہ ایک اہم مطالبہ تھا۔
صدر غنی کے مطابق افغان حکومت اس ڈیل کا حصہ نہیں ہے البتہ اس کا ایک وفد اس موقع پر دوحہ میں موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق طے پائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ طالبان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت ایک 'امریکی کٹھ پتلی‘ ہے، اس لیے اس سے براہ راست مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔
صدر غنی کے مطابق افغانستان میں داخلی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی کا معاملہ زیر بحث لایا جا سکتا ہے لیکن یہ امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات کی کوئی شرط نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کی رہائی کا فیصلہ 'امریکی اتھارٹی‘ میں نہیں آتا بلکہ یہ فیصلہ خود افغان حکومت کو کرنا ہو گا۔
تاہم صدر غنی نے تصدیق کی کہ اس ڈیل کے تحت افغانستان میں تشدد میں کمی کی خاطر سات روزہ جزوی فائر بندی پر عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مقصد یہی ہے کہ مکمل سیزفائر کو ممکن بنایا جائے۔
اس امن ڈیل کے تحت افغانستان متعینہ امریکی فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔ اس وقت افغانستان میں تقریباﹰ تیرہ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ ابتدائی طور پر ان میں سے آٹھ ہزار چھ ہزار فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا بھی طالبان کا ایک مرکزی مطالبہ تھا۔
امریکا اور افغانستان نے اس ڈیل کو ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے افغانستان میں پائیدار قیام امن میں مدد ملے گی۔ اس ڈیل کے ساتھ افغانستان میں گزشتہ اٹھارہ برسوں سے جاری جنگ کے ختم ہونے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔