1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان قیدیوں کے تبادلے پر رضامند

عابد حسین23 مارچ 2016

افغانستان میں طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں مذاکرات کا عمل شروع کرنے میں انکار کے بعد طالبان کے اِس اعلان کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

آج بدھ کے روز افغانستان میں مسلح تحریک چلانے والی عسکریت پسند تنظیم طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر راضی ہے۔ اِس مثبت پیش رفت کو افغان منظر پر اہم خیال کیا گیا ہے کیونکہ طالبان اور کابل حکومت کے درمیان براہِ راست مذاکرات شروع کرنے کا عمل استوار نہیں ہو سکا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہونے پر حکومت اور طالبان مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

طالبان کے قیدیوں پر تبادلے کے معاملے پر رضامندی سے قبل وہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے حکومتی جیلوں میں مقید عسکریت پسندوں کی رہائی اور غیرملکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اُن کے کسی سابقہ اعلان میں قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ سامنے نہیں آیا تھا۔ اسی تبدیلی کو ماہرین ایک اہم پیش رفت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس دوران طالبان نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ’دشمن‘ قوت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دے دیا گیا ہے اور یہ کمیشن حکومتی نمائندوں کے ساتھ ملاقاتیں کر کے رہائی کے عمل کو پایہٴ تکمیل تک پہنچائے گا۔

طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کی ہےتصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer

طالبان نے قیدیوں کے تبادلے کے لیے کمیشن کی تشکیل میں یہ اعلان بھی کیا ہے کہ تبادلے کے عمل میں خصوصی قوانین کا اطلاق کیا جائے گا۔ طالبان کی جانب سے خصوصی قوانین کی تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے کہ یہ کس نوعیت کے ہوں گے اور کن قیدیوں پر ان کا اطلاق کیا جائے گا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امکاناً طالبان کا کمیشن کابل حکومت کے ساتھ خصوصی قوانین کے معاملے کو زیر بحث لا کر اُن کے قطعی ہونے کو حتمی شکل دے گا۔ ایسے اندازے لگائے گیے ہیں کہ طالبان دوسرے ملکوں میں مقید طالبان عسکریت پسندوں کا معاملہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر غیر ممالک میں مقید طالبان قیدیوں کا مطالبہ پیش کیا گیا تو اِس ضمن میں کابل حکومت کی وزارتِ خارجہ کو اپنی سی کوشش کرنا پڑے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ کچھ طالبان قیدی امریکی حراست میں بھی ہیں۔ دوسری جانب افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان جنرل محمد ردمانش نے اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر طالبان کی قید سے قیدیوں کو رہا کروانا پڑا تو اِس کے لیے خصوصی فوجی آپریشن شروع کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا لیکن سرِدست طالبان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا کوئی طریقہٴ کار موجود نہیں ہے۔ کابل حکومت کی اعلیٰ امن کونسل کے ایک رکن شفیع اللہ شافی نے عندیہ دیا ہے کہ مذاکراتی عمل پر اثرانداز ہونے والے طالبان قیدیوں کی رہائی کی کوشش کی جائے گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں