طالبان مذاکرات کی میز پر آ جائیں گے، افغان حکام
6 مارچ 2016 ایک سینئر افغان اہل کار نے خبر رساں ادارے اے یف پی کو بتایا کہ افغان حکومت کو امید ہے کہ طالبان امن مذاکرات میں شمولیت پر راضی ہو جائیں گے۔
نام مخفی رکھنے کی شرط پر اس اہل کار کا کہنا تھا، ’’جلد یا بہ دیر، طالبان بات چیت کے لیے تیار ہو جائیں گے۔‘‘
واضح رہے کہ ہفتے کے روز طالبان نے چہار فریقی مذاکرات میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔ یہ مذاکرات اسلام آباد میں ہونا تھے۔ چہار فریقی گروپ میں افغانستان، پاکستان، چین اور امریکا شامل ہیں۔
طالبان کا مطالبہ ہے کہ جب تک تمام غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلاء نہیں ہو جاتا تب تک وہ افغان حکومت یا کسی دوسرے فریق سے بات چیت نہیں کریں گے۔
اتوار کے روز افغان پارلیمان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ طالبان ان کی حکومت سے تعاون پر راضی ہو جائیں گے۔
غنی کا افغان قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں طالبان سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑا تاریخی امتحان ہے۔ انہیں طے کرنا ہوگا کہ وہ افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہیں یا ان کے مخالف۔ امن ہی صرف افغانستان کا مستقبل ہے۔‘‘
افغان صدر نے تاہم انتباہ کیا کہ افغان عوام بد ترین صورت حال کے لیے بھی تیار رہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے لیے شرائط نہیں لگانا چاہییں۔
افغان صدر اشرف غنی نے افغان پارلیمنٹ سے خطاب میں یہ بھی کہا کہ شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ کو افغانستان کے مشرقی حصوں ميں شکست دے دی گئی ہے۔ غنی نے کہا کہ مشرقی صوبے ننگرہار ميں داعش کے ساتھ روابط رکھنے والوں کو مات دے دی گئی ہے۔
ايک افغان صوبائی اہل کار نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتايا کہ افغان دستوں نے ننگرہار صوبے کے آچين اور شنوار نامی اضلاع ميں اکيس دنوں کے عسکری آپريشن کے دوران تقريباً دو سو جنگ جوؤں کو ہلاک کيا ہے۔ قبل ازيں اطلاعات تھيں کہ ان علاقوں ميں داعش کے شدت پسندوں نے کنٹرول قائم کر ليا ہے۔
افغان صدر کی پارليمانی تقرير اتوار کے روز براہ راست ٹيلی وژن پر نشر کی گئی۔