1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان میں اختلافات، داعش کے لیے سود مند

امتیاز احمد22 جنوری 2015

طالبان کے مختلف دھڑوں میں پائے جانے والے شدید اختلافات اور اپنی قیادت کے بارے میں شکوک و شبہات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے عسکریت پسند شام اور عراق میں سر اٹھانے والی جہادی تنظیم داعش سے متاثر ہو رہے ہیں۔

Islamischer Staat Logo Flagge Fahne

مختلف سکیورٹی اور خفیہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) کے جنوبی ایشیا میں کوئی آپریشنل لنِکس موجود نہیں ہیں اور ویسے بھی شام اور عراق میں سرگرم یہ جہادی تنظیم جنوبی ایشیا کی بجائے عرب دنیا پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ دوسری جانب جنوبی ایشیا کی حکومتیں اس بارے میں پریشان ہیں کہ یہ تنظیم مستقبل میں اسے خطے کو غیر مستحکم کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے جبکہ طالبان کے مختلف دھڑوں سے الگ ہونے والے عسکریت پسند اس تنظیم کے لیے ایندھن کا کام کر سکتے ہیں۔

حال ہی میں ایک افغان طالبان کمانڈر نے اعلان کیا تھا کہ وہ اور ان کے کئی ساتھی آئی ایس، جسے پاکستان اور افغانستان میں داعش کے نام سے پکارا جاتا ہے، میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کمانڈر کا کہنا تھا کہ وہ افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کی قیادت سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ملا عمر گزشتہ کئی برسوں سے عوام میں منظر عام پر نہیں آئے ہیں اور یہ سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں کہ آیا وہ زندہ بھی ہیں ؟

افغانستان کے صوبہ کُنڑ سے گفتگو کرتے ہوئے اس کمانڈر کا کہنا تھا، ’’دیکھیں ہم گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں لڑ رہے ہیں اور ہمارے قبضے میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف داعش نے انتہائی مختصر عرصے میں شام اور عراق کا وسیع علاقہ اپنے قبضے میں کرتے ہوئے وہاں شریعت قائم کر دی ہے۔ ہمارے حلقوں میں ہر وقت اسی پر بحث ہو رہی ہے۔‘‘

اس کمانڈر کا کہنا تھا، ’’ ہمیں واقعی سنگین شکوک و شبہات ہیں کہ آیا ملا عمر زند بھی ہیں ؟ ابو بکر البغدادی نظر بھی آتا ہے اور اپنے لوگوں‌ کی قیادت بھی کر رہا ہے۔‘‘ یہ کمانڈر ان کئی عسکریت پسندوں میں سے ایک ہے، جو نام نہاد خراسان تنظیم میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، آئی ایس کا ذیلی خراسان گروپ افغانستان، پاکستان، بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں اپنی تنظیم کے قیام کا اعلان کر چکا ہے۔

دوسری جانب پاکستانی خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ آئی ایس یا خراسان کی خطے میں کوئی مخصوص بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی مالی سرگرمیوں کا کوئی ایسا ثبوت موجود ہے۔

دوسری جانب تجزیہ کار اس بات پر بھی متفق ہیں کہ خطے میں آئی ایس کے نظریات کو پسند کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کا صوبہ ہلمند کو طالبان کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے لیکن وہاں بھی طالبان کے ایک سابق کمانڈر ملا رؤف خالد نے تقریباﹰ ایک سو جنگجو بھرتی کرتے ہوئے داعش میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔

صوبہ ہلمند کے قبائلی رہنما عبدالاحد معصومی کا کہنا ہے، ’’سینئر طالبان رہنماؤں اور ملا رؤف خالد کے مابین اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔‘‘ ملا رؤف خالد نے دیگر کمانڈروں کو کہا تھا کہ ملا عمر پاکستان میں بیمار ہونے کی وجہ سے وفات پا چکے ہیں۔ علاقے میں ملا رؤف خالد کے جنگجو وہی جھنڈے استعمال کر رہے ہیں، جو آئی ایس کے ہیں۔ دوسری جانب جنوبی علاقوں میں طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے کہا ہے، ’’اس طرح کا کوئی گروپ موجود نہیں ہے، یہ صرف ریاستی پروپیگنڈا ہے۔ یہاں پر حکومتی فوجیوں کو بری طرح شکست ہوئی ہے اور اب وہ طالبان میں اختلافات کی باتیں کر کے اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتے ہیں۔‘‘

لیکن آئی ایس کے نظریات کو پاکستان اور افغانستان کے باہر بھی حمایت حاصل ہے۔ بنگلہ دیش میں آئی ایس سے روابط رکھنے کے الزام میں آٹھ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بھارت نے گزشتہ ماہ ملک میں آئی ایس کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ چلانے والے ایک انجنیئر کو گرفتار کر لیا تھا اور بعدازاں آئی ایس پر پابندی عائد کر دی تھی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں