افغانستان میں طالبان نے 34 کمانڈوز کو ہلاک کر دیا ہے۔ حکام نے آج جمعرات 18 جولائی کو بتایا کہ یہ واقعہ منگل کی شب مغربی صوبے بادغیس میں پیش آیا۔
اشتہار
صوبہ بادغیس کے ایک ضلع اب کماری کے سربراہ خدا داد خان نے خبر رساں اداروں کو بتایا کہ ان دستوں کو اس ضلعے میں طالبان کے خلاف ایک خصوصی کارروائی کے لیے روانہ کیا گیا تھا تاہم گھات لگائے عسکریت پسندوں نے راستے میں ہی ان کمانڈوز کو نشانہ بنا دیا۔
صوبائی کونسل کے صدر بہاالدین قدسی نے آج جمعرات کی صبح بتایا کہ مقامی آبادی نے خصوصی دستوں کے ہلاک ہونے والے کمانڈوز کی لاشیں صوبے کے سب سے بڑے شہر بالا مرغاب پہنچا دی گئی ہیں۔ قدسی کے بقول قتل کرنے سے قبل کم از کم گیارہ افراد کو طالبان نے یرغمال بنایا تھا۔
افغان کمانڈوز کو امریکی دستوں کی جانب سے تربیت دی گئی ہے۔ انہیں انسداد دہشت گردی کے بہترین تربیت یافتہ دستے قرار دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ان کمانڈوز کو جدید ترین اسلحہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔
اسی دوران افغان فوج کے ایک بریگیڈیئر کمانڈر کو جنوب مشرقی صوبے غزنی کے قرہ باغ ضلعے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔ حکام نے بتایا کہ طالبان کے اس حملے میں فوجی افسر کا محافظ زخمی ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عسکری تنصیب پر موجود ایک فوجیوں کی جوابی کارروائی میں حملہ آور بھی مارے گئے۔ مقامی انتظامیہ کے دفاتر کے علاوہ ضلع قرہ باغ کے زیادہ تر حصہ طالبان کے زیر اثر ہے۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.