1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

کیا دُنبے کے خصیوں کا پکانا حرام ہے؟

28 اکتوبر 2022

افغان صوبے ہرات میں طالبان حکام نے ایک ریستوراں میں دُنبے کے خُصیوں یا کپوروں کی فروخت اور انہیں پکانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ جانیے زیادہ تر مرد کپورے کیوں کھاتے ہیں اور علمائے دین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

Lämmer
تصویر: Angelika Warmuth/dpa/picture alliance

افغانستان کی 'امر بالمعروف والنہی عن المنكر‘ وزارت سے منسلک حکام نے حال ہی میں صوبے ہرات میں احکامات جاری کرتے ہوئے ریستورانوں میں دنبےکے خُصیوں کو پکانے اور ان کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ عضو 'خُصیہ‘ مکروہ ہے اور اس کا استعمال برائی کے زمرے میں آتا ہے۔

ہرات کے ایک ضلع میں ایک بار بی کیو ریستوران کے باورچیوں میں سے ایک معروف باورچی رضائی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''کچھ عرصہ پہلے افغانستان کی وزارت  'امر بالمعروف والنہی عن المنكر‘ کے کئی اہلکار ریستوران آئے اور مجھ سے کہا کہ کسی صورت میں بھی دنبے کے خُصیوں کو نکال کر کچا یا پکا کر فروخت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کپورے حرام ہوتے ہیں۔‘‘

 مذکورہ وزارت کے اہکاروں کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے قندھار کے علاقے درب میں کئی دیگر کباب فروشوں کو سزا دی ہے۔ وہ کئی برسوں سے اپنے گاہکوں کو دنبےکے خُصیے کباب کے طور پر فروخت کر کے کھلا رہے تھے۔

طالبان حکومت میں تیسری توسیع، کوئی خاتون شامل نہیں

بکروں اور دنبوں کے خصیوں کا استعمال

یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ بکروں اور دنبوں کے خُصیے نہیں کھاتے تاہم بہت سے افراد اسے بہت دلچسپی اور باقاعدگی سے کھاتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے اس بارے میں ہرات کے ایک رہائشی سیروس سے بات چیت کی۔ انہوں نے کہا،''میں ذاتی طور پر اس قسم کے کھانوں کا بہت شوقین ہوں۔ میں ہفتے میں ایک بار ضرور ریستوران جاتا ہوں اور اس کھانے کا آرڈر دیتا ہوں لیکن گزشتہ ہفتے جب میں ریستوران گیا تو وہاں کے مینیجر نے کہا کہ طالبان کے احکامات کی وجہ سے ہم کپورے نہیں بیچ سکتے۔‘‘

قندھار میں بھیڑوں کا کاربار کرنے والا ایک گڈیریاتصویر: Javed Tanveer/AFP

سیروس نے تاہم اس امر پر ناخوش گواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا،''اگر اسلام میں دنبےکے خصیےکھانا حرام ہے تو اسے اب تک کیوں بے دریغ فروخت کیا جاتا تھا اور لوگ بلا جھجک اس کا استعمال کیوں کرتے تھے؟ ہم بھی مسلمان ہیں اور اچھے بُرے کی تمیز کر سکتے ہیں۔‘‘

طالبان کا اس بارے میں موقف

صوبہ ہرات میں طالبان کے سربراہ مولوی عزیز الرحمان کہتے ہیں کہ دنبےکے خُصیے کھانا اسلامی نقطہ نظر سے ''مکرہ تحریمی‘‘ ہے۔ انہوں نے اس کی مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا،''شرعی نقطہ نظر سے دنبےکے خصیے کھانا مکروہ ہے اور جو بھی مکروہ ہو اسے مکروہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے ریستورانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دنبے کے خصیوں کی خرید و فروخت اور پکانے سے گریز کریں۔‘‘

مذہبی علماء کی رائے

دنبے کے خُصیے کھانے کے بارے میں مذہبی علماء کے درمیان کوئی اتفاق نہیں پایا جاتا۔ کابل کے ایک عالم دین سید عبدالہادی ہدایت کا کہنا ہے کہ اکثر علماء کے مطابق اگر دنبےکو اسلامی طریقے سے ذبح کیا جائے تو اس کی دم یا خُصیے بھی اس کے گوشت کی طرح حلال ہیں۔

سب افغان بچے پہلے تین سال پرائمری اسکولوں کے بجائے مساجد میں

بھیڑوں کو ہر معاشرے میں ایک اہم تجارتی مویشی سمجھا جاتا ہےتصویر: AFP/Getty Images

 ہدایت کا کہنا تھا،''علمائے کرام اس معاملے میں مختلف آراء رکھتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ دنبے کے خصیے کھانا حلال ہے، کچھ اسے مکروہ قرار دیتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے۔ کچھ علماء کے نزدیک دنبے کی دم کھانا جائز ہے بشرطیکہ اسے اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو۔ اسے کھانا حلال ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘

 

مرد کپورے کیوں استعمال کرتے ہیں؟

عام مرد حضرات میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ  دنُبےکے خُصیے نہایت مقوی غذا ہے اور کئی مرد انہیں اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ جنسی قوت حاصل ہو۔

ہرات میں جنسی امراض کے ماہر ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر محمد رفیق شیرازی کہتے ہیں،'' مرد  دنبے کے خُصیوں کی سب سے بڑی خاصیت اس کو سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے دنبے کے اسپرمز یا منی پیدا ہوتی ہے کیونکہ نر ممیلیہ کے اس غدود میں ٹیسٹوسٹیرون کی  بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ ٹیسٹوسٹیرون وہ ہارمونز ہیں، جو مردوں میں پایا جاتا ہے اور یہی ہارمون اسپرمز کی پیداوار میں اہم ترین کردار ادا کرتا  ہے۔‘‘

کمزور دل جنسی فعل بھی کمزور کر دیتا ہے

تاہم ڈاکٹر محمد رفیق شیرازی نے اس اہم امر کی وضاحت کی کہ دنبے کے کپورے پکنے کے بعد اپنے اندر پائے جانے والے ٹیسٹوسٹیرون کھو دیتے ہیں اور ان کا اسپرمز کی پیداوار پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔

مغرب میں بھیڑوں کی کھالوں سے بنی بہت سی اشیاء مہنگے داموں بکتی ہیںتصویر: Daniel Schäfer/picture alliance/dpa

 'امر بالمعروف والنہی عن المنكر کی وزارت

طالبان نے افغانستان پر دوبارہ اپنا سیاسی اثر و رسوخ جمانے اور اقتدار ہاتھ میں لینے کے بعد خواتین کے امور سے متعلق وزارت کو ختم کر کے اس کی جگہ وزارت  امر بالمعروف والنہی عن المنكر‘ قائم کر دی تھی۔ اس کا مقصد دراصل سخت گیر مذہبی عقائد کو قانون کے طور پر نافذ کرنا ہے۔  'امر بالمعروف والنہی عن المنكر‘ کا لفظی معنی نیکی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا ہے۔ افغانستان میں جب طالبان پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تو اُس وقت بھی انہوں نے اس وزارت کو قائم کیا تھا۔

بہت سے عام افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ طالبان روزمرہ کی عوامی زندگی پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کر کے عوام کے لیے مشکلات بڑھا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے کھانے پینے پر پابندی لگا کر وہ عوام کی دل آزاری اور حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں