طالبان نے نئی افغان حکومت کا اعلان کر دیا، سربراہ حسن اخوند
7 ستمبر 2021
افغانستان میں طالبان نے نئی ملکی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے، جس کے سربراہ ملا عمر کے قریبی ساتھی ملا حسن اخوند ہوں گے۔ طالبان تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر اس عبوری حکومت کے نائب سربراہ ہوں گے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کابل میں نئی افغان حکومت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئےتصویر: Bilal Guler/AA/picture alliance
اشتہار
کابل سے منگل سات ستمبر کی شام موصولہ رپورٹوں کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان دارالحکومت میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نئی ملکی حکومت کی قیادت ملا حسن اخوند کو سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ملا حسن اخوند ماضی میں طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ وہ طالبان کے دور اقتدار کے آخری برسوں میں بھی کابل میں ملکی حکومت کے سربراہ تھے۔
ملا برادر نائب حکومتی سربراہ
حسن اخوند کا نائب ملا عبدالغنی برادر کو بنایا گیا ہے، جو طالبان تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو بتایا کہ نئی ملکی حکومت میں شمولیت کے لیے تمام نامزدگیاں عبوری بنیادوں پر کی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ عبوری دور کب تک جاری رہے گا اور آیا عبوری مدت کے اختتام پر ملک میں الیکشن بھی کرائے جائیں گے۔
طالبان کی نئی حکومت کے عبوری وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند کی انیس سو ننانوے میں لی گئی ایک تصویرتصویر: SAEED KHAN/AFP
اس کے علاوہ حقانی نیٹ ورک کے بانی کے بیٹے سراج الدین حقانی کو نیا ملکی وزیر داخلہ بنایا گیا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو امریکا نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
نئی افغان حکومت میں وزیر دفاع کے طور پر ملا محمد یعقوب کا انتخاب کیا گیا ہے، جو طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں۔
قائم مقام وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی ہوں گے۔
طالبان کے مرکزی رہنما کا کردار غیر واضح
ذبیح اللہ مجاہد نے اس بارے میں کچھ نہ کہا کہ نئی افغان حکومت میں طالبان تحریک کے مرکزی رہنما ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ کا ممکنہ کردار کیا ہو گا۔
طالبان نے کابل میں مغربی دنیا کے حمایت یافتہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے خلاف پیش قدمی کرتے ہوئے ملکی دارالحکومت پر گزشتہ ماہ کے وسط میں قبضہ کر لیا تھا اور اس سے کچھ ہی دیر قبل اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ تب سے اب تک ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ نہ تو منظر عام پر آئے ہیں اور نہ ہی ان کی طرف سے عوامی سطح پر کچھ کہا گیا ہے۔
حسن اخوند کا نائب ملا عبدالغنی برادر کو بنایا گیا ہے، جو طالبان تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیںتصویر: SOCIAL MEDIA/REUTERS
حکومتی اعلان سے ملنے والا شارہ
خبر رساں ادارے روئٹرز نے طالبان کی طرف سے حکومت سازی کے اعلان کے بعد کابل سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ سخت گیر اسلامی سوچ کی حامل طالبان تحریک نے اپنی صفوں میں سے جن افراد کا حکومتی عہدوں کے لیے انتخاب کیا ہے، وہ ظاہر کرتا ہے کہ نئی حکومت سے کسی چھوٹ کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے۔
اس کے ایک ثبوت کے طور پر روئٹرز نے لکھا ہے کہ آج ہی کابل میں نئی افغان حکومت کے قیام کا اعلان کیا گیا اور آج ہی دارالحکومت میں طالبان کے ارکان نے چند مختلف احتجاجی ریلیوں کے شرکاء کو منشتر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔ ان احتجاجی ریلیوں میں سے ایک میں اکثریت خواتین مظاہرین کی تھی۔
اشتہار
طالبان کی بار بار کرائی جانے والی یقین دہانی
کابل پر قبضے کے بعد سے طالبان کی طرف سے بار بار افغان عوام اور بیرونی دنیا کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ مستقبل میں ہندو کش کی اس ریاست کو دوبارہ اس جبر اور بربریت کی طرف نہیں لے جائیں گے، جس کا مظاہرہ انہوں نے دو عشرے قبل اپنے پہلے دور اقتدار کے خاتمے تک کیا تھا۔
تب انتہائی سخت سزائیں متعارف کرا دی گئی تھیں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی تھی جبکہ خواتین کو بھی عوامی زندگی میں حصہ لینے سے عملاﹰ روک دیا گیا تھا۔
م م / ع ا (روئٹرز، اے پی)
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔