1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان وزیر خارجہ متقی ’غیر معمولی‘ دورے پر پاکستان میں

6 مئی 2023

امیر خان متقی کی قیادت میں افغان وفد اسلام آباد میں پاکستانی اور چینی وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں اور بات چیت کرے گا۔ یہ وفد طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے بیرون ملک جانے والے اعلیٰ ترین افغان وفود میں سے ایک ہے۔

Afghanistan Kabul | Mawlawi Amir Khan Muttaqi, Außenminister Übergangsregierung
تصویر: Bilal Guler/Anadolu Agency/picture alliance

افغانستان  کی طالبان حکومت کے وزیر خارجہ ہفتہ کے روز اسلام آباد کے اپنے ایک غیر معمولی دورے کے دوران اپنے پاکستانی اورچینی ہم منصبوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ امیر خان متقی کو بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان چھوڑنے سے روک دیا گیا تھا لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے خواتین پر طالبان حکومت کی پابندیوں کی ایک بار پھر مذمت کیے جانے کے چند روز بعد ہی اس طالبان رہنماکو اسلام آباد کے دورے کے لیے چھوٹ دی گئی۔

چین کے سابق وزیر خارجہ وانگ ژی نے نے گزشتہ برس مارش میں کابل کا دورہ کیا تھاتصویر: Taliban Foreign Ministry/AFP

چین اور پاکستان افغانستان کے سب سے اہم پڑوسی ہیں۔ بیجنگ کی نظریں افغانستان کے ساتھ اپنی چھوٹی سی مشترکہ سرحد کے قریب غیر استعمال شدہ وسیع معدنی وسائل پر ہیں جبکہ اسلام آباد اپنی طویل مشترکہ سرحد کے ساتھ ساتھ بڑے سکیورٹی خطرات سے خبردار ہے۔

طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے بنا ہی دوحہ سربراہی ملاقات ختم

افغان وزیر خارجہ کے ہمراہ تجارت اور صنعت کے وزیر بھی اس دورے پر آئے ہیں۔ امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور مغربی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد اگست 2021 ء میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے یہ وفد بیرون ملک بھیجے گئے اعلیٰ ترین افغان وفود میں سے ایک ہے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک ساؤتھ ایشین اسٹریٹیجک اسٹیبیلیٹی انسٹیٹیوٹ کی سربراہ ماریہ سلطان نے کہا، ''میرے خیال میں اس سربراہی اجلاس کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس وقت افغانستان کے استحکام کے بغیر علاقائی اقتصادی ترقی کا مستقبل ممکن نہیں۔‘‘ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''یہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کیے جائیں اور یہ تبھی ممکن ہے، جب سفارتی راستے کی تعمیر نو بھی کی جائے۔‘‘

افغانستان چھوڑنے کے 'اندوہناک' فیصلے پر مجبور، اقوام متحدہ

رواں ہفتے کے آغاز پر اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش نے امریکہ، روس، چین اور 20 دیگر ممالک اور تنظیموں کے سفیروں کے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ افغانستان میں ''لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو خاموش اور نظروں سے اوجھل کیا جا رہا ہے۔‘‘ اس اجلاس میں طالبان کے سرکاری عہدیداروں کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زردار تصویر: Irfan Aftab/DW

اسی ہفتے بھارت میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی کابل کے کسی نمائندے کو مدعو نہیں کیا گیا تھا حالانکہ افغانستان کو اس تنظیم میں ایک مبصر ملک کی حثیت حاصل ہے۔

اقوام متحدہ اپنے افغان مشن پر نظرثانی کیوں کر رہا ہے ؟

طالبان حکومت نے ملکی خواتین پر عائد کردہ پابندیوں پر تنقید کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں ایک 'اندرونی سماجی مسئلہ‘ قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا ہے، اس کی 38 ملین آبادی بھوک کا شکار ہے اور 30 ​​لاکھ بچے غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

دہلی میں شنگھائی گروپ کے سیکورٹی مشیروں کی میٹنگ میں پاکستان کی شرکت

چینی وزیر خارجہ چِن گانگ دسمبر میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے پاکستان کا پہلا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ دو طرفہ بات چیت بھی کریں گے۔ چین سرد جنگ کے بعد سے پاکستان کا کلیدی دفاعی اتحادی رہا ہے اور اربوں ڈالر کے قرضوں اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے اس کا سب سے اہم اقتصادی شراکت دار بھی ہے۔

ش ر ⁄  م م (اے ایف پی)

طالبان غلط راستے پر گامزن ہیں، بیئربوک

01:49

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں