طالبان پاکستان میں ‘پتھر کا دور‘ لانا چاہتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری
16 فروری 2014پاکستان کی سابقہ مقتول وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کے روز سندھ فیسٹیول کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو دہشت گردی کے خطرے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ میں منعقد ہوئے دو ہفتے پر محیط اس فیسٹیول کی اختتامی تقریب کے شرکا سے مخاطب ہوتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا، ’’طالبان پاکستان میں دہشت کا قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن میں انہیں مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں آئین کی پاسداری کرنا ہو گی۔‘‘
بلاول نے مزید کہا، ’’ہم دہشت گردوں کا قانون تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اسلام کے نام پر پاکستان میں پتھر کا دور رائج کرنے کی کوشش میں ہیں،‘‘ انہوں نے پاکستانی طالبان کو ایک ایسے وقت میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے جب نواز شریف کی حکومت ان شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس مذاکراتی عمل کو ابھی دو ہفتے ہی ہوئے ہیں تاہم تشدد کے تازہ واقعات نے طالبان اور اسلام آباد کے مابین جاری امن مذاکرات پر کئی سوالیہ نشانات لگا دیے ہیں۔
ماضی میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والے نوجوان سیاستدان بلاول کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کامیابی کی کوئی امید نہیں ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستانی طالبان ملک میں شرعی قوانین کے اطلاق کے علاوہ امریکی ڈرون حملوں کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔ مبصرین کے بقول یہ شرائط ایسی ہیں جو ملک کی طاقتور فوج اور حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔
ہفتے کے دن بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے ایک سو کلو میٹر دور شمال میں واقع مکلی میں سندھ فیسٹیول کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا،’’طالبان کو اس وقت کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے، جب تمام قوم ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی۔۔۔ ہم مسلمان ہیں اور طالبان دہشت گردوں کو ہمیں اسلامی تعلیم دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
حکومت اور طالبان کے مابین مذاکراتی عمل
بلاول نے 2008ء میں سوات میں جنگجوؤں کے ساتھ کیے جانے والے ناکام امن مذاکرات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ قوم ماضی میں شدت پسندوں کے ساتھ مکالمت کی کوشش کر کے دیکھ چکے ہیں، ’’ہم نے سوات میں جنگجوؤں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام ہو گئی تھی۔ بعد ازاں ہم نے وہاں فوجی کارروائی کے ذریعے حکومتی رٹ قائم تھی۔‘‘
اپنی پر جوش تقریر میں ملالہ یوسفزئی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’قوم کی بیٹیوں سے پوچھیے کہ دہشت گردی کا مطلب کیا ہے؟ کیا قوم کی بیٹیوں کے ساتھ ملالہ جیسا سلوک کیا جانا چاہیے؟
دوسرے طرف ہفتے کے دن ہی لاہور میں تقریباً چالیس مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس کا مقصد طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے حکومتی وفد کے اندر اعتماد سازی کی فضا کو مزید بہتر بنانا تھا۔ اس اجلاس کی قیادت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کی۔
مغربی ممالک میں طالبان کے روحانی رہنما تصور کیے جانے والے مولانا سمیع الحق نے اس اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں قیام امن کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔ اس اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں حکومت اور باغیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر فائر بندی کا اعلان کرتے ہوئے امن مذاکرات کی طرف بڑھیں۔