1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان، کابل حکومت کے اگلے مذاکرات چین میں

افسر اعوان24 جولائی 2015

افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کا دوسرا دور اگلے ہفتے کے دوران چین میں ہو گا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے یہ بات ایک افغان اہلکار کے حوالے سے بتائی ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

افغانستان کی حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد اس ملک میں گزشتہ 14 برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہے۔ افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ دار اعلٰی افغان امن کونسل ہے۔

اس اعلیٰ امن کونسل کے رکن محمد اسماعیل قاسم یار نے آج جمعہ 24 جولائی کو اعلان کیا کہ بات چیت کے اس دوسرے دور کے لیے چین کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق فریقین ان دنوں مذاکرات کے دوسرے دور کے لیے تیاریوں میں مصروف ہیں، جن میں ان افراد کی فہرست بھی شامل ہے جو مذاکرات میں شرکت کریں گے۔

محمد اسماعیل قاسم یار کے بقول اس موقع پرکابل حکومت ایک عارضی فائر بندی کی درخواست بھی کرے گی۔ افغانستان میں طالبان کی جانب سے اپریل سے حملوں میں تیزی آ گئی ہے۔ قاسم یار کے مطابق، ’’ہم جنگ بندی پر تیار ہیں اور یہ ایک اچھا موقع ہوگا کہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ جنگی کارروائیوں میں مصروف عسکریت پسند طالبان لیڈر شپ کی طرف سے جنگ بندی کے احکام پر عمل کرنے کو تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔‘‘

فریقین کے مابین امن بات چیت کا پہلا دور سات جولائی کو اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا، جس میں امریکی اور چینی نمائندے بھی موجو تھے۔ افغانستان میں گزشتہ برس اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد سے حکومت اور طالبان کے درمیان کئی غیر رسمی رابطے ہو چکے ہیں۔ غنی نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو اپنی ترجیح بنا رکھا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صدر اشرف غنی کے نائب ترجمان ظفر ہاشمی نے مذاکرات کے اس آئندہ دور کے بارے میں قاسم یار کے بیان کی تصدیق نہیں کی۔ تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ ملکی صدر کوشش کر رہے ہیں کہ افغان وفد میں ’معاشرے کے تمام طبقوں‘ کے نمائندے شریک ہوں، مثلاﹰ خواتین، سول سوسائٹی، امن کے لیے کام کرنے والے اور ان کے علاوہ وہ جہادی رہنما بھی جو سوویت مداخلت اور پھر 1996ء سے 2001ء کے درمیان طالبان کے خلاف لڑ چکے ہیں۔

اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو اپنی ترجیح بنا رکھا ہےتصویر: picture alliance/AP Images/R. Gul

افغانستان کی ’ہائی پیس کونسل‘ کے رکن شہزادہ شاہد کے مطابق کم از کم ایک خاتون حکومتی مذاکراتی ٹیم میں شامل ہو گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان نے بھی مذاکرات کے حوالے سے اپنی شرائط رکھی ہیں، جن میں اقوام متحدہ اور امریکا کی جانب سے تیار کردہ بلیک لِسٹ سے طالبان کے ناموں کو نکالنا بھی شامل ہے۔ اس طرح ان شخصیات کو بین الاقوامی سفر کی اجازت مل جائے گی۔

ادھر ایک امریکی حملے میں مشرقی افغانستان میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا ایک اہم رہنما ہلاک ہو گیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر کے مطابق القاعدہ کے رہنما ابوخلیل السوڈانی کو مشرقی افغانستان میں گیارہ جولائی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایشٹن کارٹر کے بقول السوڈانی القاعدہ کی شوریٰ کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کی طرف سے کیے جانے والے خود کش حملوں اور دیگر دھماکہ خیز کارروائیوں کا سربراہ بھی تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس فضائی حملے میں دو دیگر شدت پسند بھی ہلاک ہوئے، تاہم انہوں نے ان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ کارٹر آج عراق میں کرد علاقے کے رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں