1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا افغانستان، میڈیا میں نئی سیلف سینسر شپ کا آغاز

3 ستمبر 2021

اشتہاروں اور حکومتی ہدایات پر چلنے والے کمرشل میڈیا ادارے حکومتی پالیسیوں کے خلاف نہیں جا سکتے۔ براہ راست احکامات نہ ہوں تو یہ سیلف سینسر شپ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ افغان میڈیا بھی کچھ ایسی ہی مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔

Afghanistan Tolo TV-Sender in Kabul
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

افغانستان کے سب سے زیادہ مقبول ٹیلی وژن طلوع نیٹ ورک نے رومانس بھرے ڈرامے، اوپرا اور میوزک پروگرامز کو رضا کارانہ طور پر نشر نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسے پروگرامز دیکھانے شروع کر دیے ہیں، جو سخت گیر اسلامی نظریات کے حامل طالبان کی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں۔

اگرچہ افغانستان میں طالبان کی عمل داری کے بعد ان جنگجوؤں نے بارہا کہا ہے کہ وہ افغان باشندوں بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ  کو یقینی بنائیں گے لیکن نہ صرف مغربی ممالک بلکہ افغان عوام میں بھی اس حوالے سے شکوک پائے جا رہے ہیں۔ طالبان نے کہا ہے کہ اسلامی قوانین کے مطابق ہر کسی کو اس کا حق حاصل ہو گا لیکن ان قوانین کی تشریح کیسے کی جائے گی یہ معاملہ ابھی تک مبہم ہی ہے۔

اس صورتحال میں جہاں افغان باشندے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ہیں، وہیں افغانستان کا کاروباری طبقہ بھی اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر طالبان کی نئی سوچ کے تحت اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی کوشش میں بھی ہے۔ اس کی ایک مثال افغانستان کا میڈیا ہے۔ افغانستان کے مقبول ترین نجی ٹیلی وژن نیٹ ورک طلوع ٹی وی نے انفو ٹینمنٹ پروگرامز کی نشریات رضاکارانہ طور پر روک دی ہے۔ناقدین نے اسے سیلف سینسر شپ قرار دیا ہے۔

ٹی وی پروگرامز میں تبدیلیاں

افغانستان کے سرکاری ٹیلی وژن آر ٹی اے نے طالبان کی طرف سے مزید ہدایات ملنے تک تمام خواتین پریزنٹرز کو آف ایئر کرتے ہوئے اپنے پروگراموں میں اسلامی رنگ زیادہ ڈال دیا ہے۔ ZAN ٹیلی وژن نے بھی خواتین کو سکرین سے ہٹاتے ہوئے نئے پروگرامز پیش کرنا بند کر دیے ہیں۔

تاہم طلوع ٹیلی وژن کی طرح ایک اور نجی نیوز چینل آریانا ٹیلی وژن نے بھی خواتین اینکرز کو ابھی تک آف ایئر نہیں کیا ہے۔ طلوع نیوز ٹی وی کی مالک کمپنی موبی گروپ کے سی ای او سعد محسنی کے مطابق طالبان نئے افغان میڈیا کو برداشت کر رہے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ انہیں لوگوں کے دل جیتنے اور ملک میں سیاسی کردار ادا کرنے کی خاطر میڈیا کی ضرورت ہے۔سعد محسنی نے کہا، ’’ان (طالبان) کے لیے میڈیا اہم ہے۔ لیکن آئندہ کچھ ماہ میں وہ ملکی میڈیا کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔‘‘

اس بحث میں طلوع چینل نے سیلف سینسر شپ کے تحت ترک ٹی وی ڈرامے اور میوزک ویڈیو پروگرامز دیکھنا بند کر دیے ہیں۔ سعد محنسی کے بقول، ''میرا خیال ہے کہ یہ نئی حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔‘‘ اس چینل نے ایسے ترک ڈرامے نشر کرنا شروع کر دیے ہیں، جو خلافت عثمانیہ دور کی عکاسی کرتے ہیں اور جن میں بالخصوص خواتین کو با پردہ ہی دیکھایا گیا ہے۔

کچھ چینلز پر خواتین کی موجودگی ابھی تک برقرار ہے۔ ان ٹیلی وژن چینلز سے وابستہ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ طالبان خواتین کی ٹیلی وژن پر موجودگی کے حوالے سے براہ راست کیا احکامات جاری کرتے ہیں۔

غیر واضح قوانین اور سیلف سنسر شپ

افغانستان کے سینیئر صحافی بلال سروری کے مطابق، ''ہمیں یقینی بنانا ہے کہ افغان صحافی زندہ رہیں کیونکہ لوگوں کو ان کی ضرورت ہے۔‘‘ طالبان کی طرف سے کابل پر کنٹرول کے بعد سروری بھی اپنے اہلخانہ کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ''اگر ہم واپس نہیں جا سکتے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم نے افغانستان کو ترک کر دیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ جہاں بھی ہیں، وہاں سے افغانستان میں بہتری کے لیے کام کرتے رہیں گے۔

دریں اثنا طالبان نے مغربی میڈیا کو ملک سے رپورٹنگ کی مکمل اجازت دے رکھی ہے جبکہ ہمسایہ ملک پاکستان کے درجنوں رپورٹرز بھی افغانستان کے مختلف علاقوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ طالبان نے صرف اتنا کہا ہے کہ بس اسلامی تعلیمات اور ملکی مفادات کا خیال رکھا جائے۔

مشرق وسطی اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں ایسے ہی مبہم قواعد رائج ہیں، جو مطلق العنان ریاستیں اپنی مفادات کے حصول کی خاطر لاگو کرتی ہیں۔ اس طرح کے غیر واضح قوانین کی وجہ سے میڈیا ادارے رضاکارانہ طور پر بھی سینسر شپ کرنے لگتے ہیں تاکہ انہیں ریاستی سطح پر نشانہ نہ بنایا جائے۔

کیا طالبان پنجشیر فتح کرسکیں گے؟

03:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں