اشتہاروں اور حکومتی ہدایات پر چلنے والے کمرشل میڈیا ادارے حکومتی پالیسیوں کے خلاف نہیں جا سکتے۔ براہ راست احکامات نہ ہوں تو یہ سیلف سینسر شپ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ افغان میڈیا بھی کچھ ایسی ہی مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔
اشتہار
افغانستان کے سب سے زیادہ مقبول ٹیلی وژن طلوع نیٹ ورک نے رومانس بھرے ڈرامے، اوپرا اور میوزک پروگرامز کو رضا کارانہ طور پر نشر نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسے پروگرامز دیکھانے شروع کر دیے ہیں، جو سخت گیر اسلامی نظریات کے حامل طالبان کی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں۔
اس صورتحال میں جہاں افغان باشندے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ہیں، وہیں افغانستان کا کاروباری طبقہ بھی اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر طالبان کی نئی سوچ کے تحت اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی کوشش میں بھی ہے۔ اس کی ایک مثال افغانستان کا میڈیا ہے۔ افغانستان کے مقبول ترین نجی ٹیلی وژن نیٹ ورک طلوع ٹی وی نے انفو ٹینمنٹ پروگرامز کی نشریات رضاکارانہ طور پر روک دی ہے۔ناقدین نے اسے سیلف سینسر شپ قرار دیا ہے۔
اشتہار
ٹی وی پروگرامز میں تبدیلیاں
افغانستان کے سرکاری ٹیلی وژن آر ٹی اے نے طالبان کی طرف سے مزید ہدایات ملنے تک تمام خواتین پریزنٹرز کو آف ایئر کرتے ہوئے اپنے پروگراموں میں اسلامی رنگ زیادہ ڈال دیا ہے۔ ZAN ٹیلی وژن نے بھی خواتین کو سکرین سے ہٹاتے ہوئے نئے پروگرامز پیش کرنا بند کر دیے ہیں۔
تاہم طلوع ٹیلی وژن کی طرح ایک اور نجی نیوز چینل آریانا ٹیلی وژن نے بھی خواتین اینکرز کو ابھی تک آف ایئر نہیں کیا ہے۔ طلوع نیوز ٹی وی کی مالک کمپنی موبی گروپ کے سی ای او سعد محسنی کے مطابق طالبان نئے افغان میڈیا کو برداشت کر رہے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ انہیں لوگوں کے دل جیتنے اور ملک میں سیاسی کردار ادا کرنے کی خاطر میڈیا کی ضرورت ہے۔سعد محسنی نے کہا، ’’ان (طالبان) کے لیے میڈیا اہم ہے۔ لیکن آئندہ کچھ ماہ میں وہ ملکی میڈیا کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔‘‘
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance / newscom
11 تصاویر1 | 11
اس بحث میں طلوع چینل نے سیلف سینسر شپ کے تحت ترک ٹی وی ڈرامے اور میوزک ویڈیو پروگرامز دیکھنا بند کر دیے ہیں۔ سعد محنسی کے بقول، ''میرا خیال ہے کہ یہ نئی حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔‘‘ اس چینل نے ایسے ترک ڈرامے نشر کرنا شروع کر دیے ہیں، جو خلافت عثمانیہ دور کی عکاسی کرتے ہیں اور جن میں بالخصوص خواتین کو با پردہ ہی دیکھایا گیا ہے۔
کچھ چینلز پر خواتین کی موجودگی ابھی تک برقرار ہے۔ ان ٹیلی وژن چینلز سے وابستہ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ طالبان خواتین کی ٹیلی وژن پر موجودگی کے حوالے سے براہ راست کیا احکامات جاری کرتے ہیں۔
غیر واضح قوانین اور سیلف سنسر شپ
افغانستان کے سینیئر صحافی بلال سروری کے مطابق، ''ہمیں یقینی بنانا ہے کہ افغان صحافی زندہ رہیں کیونکہ لوگوں کو ان کی ضرورت ہے۔‘‘ طالبان کی طرف سے کابل پر کنٹرول کے بعد سروری بھی اپنے اہلخانہ کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ''اگر ہم واپس نہیں جا سکتے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم نے افغانستان کو ترک کر دیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ جہاں بھی ہیں، وہاں سے افغانستان میں بہتری کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
دریں اثنا طالبان نے مغربی میڈیا کو ملک سے رپورٹنگ کی مکمل اجازت دے رکھی ہے جبکہ ہمسایہ ملک پاکستان کے درجنوں رپورٹرز بھی افغانستان کے مختلف علاقوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ طالبان نے صرف اتنا کہا ہے کہ بس اسلامی تعلیمات اور ملکی مفادات کا خیال رکھا جائے۔
مشرق وسطی اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں ایسے ہی مبہم قواعد رائج ہیں، جو مطلق العنان ریاستیں اپنی مفادات کے حصول کی خاطر لاگو کرتی ہیں۔ اس طرح کے غیر واضح قوانین کی وجہ سے میڈیا ادارے رضاکارانہ طور پر بھی سینسر شپ کرنے لگتے ہیں تاکہ انہیں ریاستی سطح پر نشانہ نہ بنایا جائے۔