طالبان کا افغانستان، چین کے لیے امیدیں بھی اور خطرات بھی
22 اگست 2021
افغانستان میں بیس سالہ امریکی جنگی مشن کا خاتمہ دراصل نہ صرف افغانستان بلکہ وسطی ایشیائی ممالک میں بھی چین کے لیے نئے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ بیجنگ حکومت وسطی ایشیا کو اپنا ''عقبی صحن‘‘ قرار دیتی ہے۔
تصویر: Li Ran/XinHua/dpa/picture alliance
اشتہار
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کے قبضے سے جہاں چین کے لیے نئے اقتصادی اور سیاسی مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہیں خطرات بھی ہیں۔ اسلامی انتہا پسندی چین کے ایغور ریجن کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہیں، جہاں پہلے ہی چین مسلم اقلیت کے ساتھ 'امتیازی سلوک‘ برت رہا ہے۔
چین پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے خدمات سر انجام دینے کے لیے تیار ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال افغانستان میں اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے لیے البتہ اس ملک میں قیام امن اور سکیورٹی کی صورتحال انتہائی اہم ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی اتحادی فوجی مشن کے بعد یہ خطہ ایک مرتبہ پھر علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
رائل یونائٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف لندن سے وابستہ رافائلو پنٹوچی کا کہنا ہے کہ چین اس بیانیے کو فروغ دے گا کہ امریکی اثررسوخ زوال کا شکار ہے، اس لیے بیجنگ حکومت ہی یورو ایشیا میں بہتر سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس خطے میں قیام امن کا باعث بن سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے اس شک کا اظہار بھی کیا کہ فی الحال چین کے لیے یہ پراجیکٹ آسان نہیں ہو گا۔
طالبان کو پیسے کہاں سے ملتے ہیں؟
02:38
This browser does not support the video element.
دہشت گردی پھیل سکتی ہے
دیگر کئی ممالک کی طرح چین نے بھی بارہا کہا ہے کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان کو دہشت گردی کا مرکز نہیں بننے دیا جائے گا۔ چین کو خطرہ ہے کہ اس صورت میں دہشت گردی کے اثرات سنکیناگ تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ایک اور اہم یہ بھی ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے اس شدت پسندی کے اثرات پاکستان اور وسطی ایشیا کی دیگر ریاستوں پر بھی منتج ہوں گے، جہاں چین نے نہ صرف بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے بلکہ اتحادی بھی بنا رہا ہے۔
چائنہ انسٹی ٹیوٹ آف کانٹمپریری انٹرنیشنل ریلشنز سے ریٹائرڈ ہونے والے بین الاقوامی سکیورٹی کے ماہر لی وائی کے بقول طالبان کیا کریں گے یہ ابھی واضح نہیں، ''افغان طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ عالمی دہشت گرد گروہوں سے تعلق توڑ دیں گے لیکن ابھی تک ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وہ ایسا کیسے کریں گے کیونکہ ابھی تک وہ باضابطہ طور پر اقتدار میں نہیں آئے ہیں۔‘‘
اشتہار
چین اور طالبان میں ہم آہنگی مشکل
طالبان اور چین کبھی بھی 'برادرانہ دوست‘ نہیں بن سکتے کیونکہ مذہبی بنیادوں پر دونوں کے نظریات متصادم ہیں۔ کمیونسٹ چین لادین ہے، جس کا بنیادی موٹو مذاہب سے بالاتر ہو کر سماجی استحکام اور اقتصادی ترقی ہے جب کہ افغان طالبان کے لیے مذہب ہی سب کچھ ہے۔ تاہم چین کی سفارتی پالیسی ایسی ہے کہ اس کے باوجود عملیت پسند چینی رہنما طالبان کے ساتھ پارٹنر شپ بنانے کی کوشش کریں گے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے گزشتہ ماہ ہی طالبان کے ایک وفد کی میزبانی کی تھی، جس میں طالبان کے اہم سیاسی رہنما ملا عبدالغنی برادر بھی شامل تھے۔ اس دوران چین نے امید ظاہر کی تھی کہ افغانستان میں دہشت گردانہ خطرات اور تشدد کا خاتمہ ممکن ہوگا جبکہ ملک میں استحکام پیدا ہو گا۔
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
10 تصاویر1 | 10
چینی حکام اور میڈیا میں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر امریکی ہنگامی انخلا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور دہرایا گیا کہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی امریکا کے لیے باعث شرمندگی ثابت ہوئی ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے، جس کے تحت بیجنگ حکومت خطے میں امریکی اثرورسوخ کے کم ہونے کی وکلالت کر رہی ہے۔
اس کے باوجود چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بیجنگ حکومت واشنگٹن کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر کام کرنے کو تیار ہے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا دانستہ طور پر چینی مفادات اور حقوق کو دبا نہیں سکتا ہے۔
چینی مفادات کے لیے قیام امن ناگزیر
چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز سے وابستہ محقق ین گانگ کا اصرار ہے کہ امریکا اور چین دونوں کا مشترکہ مفاد اسی میں ہے کہ افغانستان میں استحکام پیدا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یوں امریکا کی بیس سالہ جنگ پر اسے اطمینان ہو گا جبکہ چین افغانستان میں تعمیر نو اور بحالی پر سرمایا کاری کر سکے گا۔
چین کی کوشش ہے کہ افغانستان میں کمرشل منصوبہ جات شروع کیے جائیں تاہم ابھی تک کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔ چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن کی قیادت میں ایک کنسورشیم (تجارتی اداروں کی تنظیم) نے کابل کے جنوب مشرق میں واقع مس عینک نامی علاقے میں تانبے کے ذخائر میں کان کنی کی خاطر تین بلین ڈالر کی بولی لگائی تھی۔ اس کے ساتھ اس منصوبے کے تحت افغانستان میں ایک پاور پلانٹ لگانے کے لیے ریلوے لائنز پچھانا تھیں اور دیگر ترقیاتی منصوبہ جات شروع کیے جانا تھے۔ کئی برسوں کی کوششوں کے باوجود بھی یہ منصوبے شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اس علاقے میں جاری باغیانہ کارروائیاں ہیں۔
اسی طرح چین نے افغانستان سے متصل پاکستانی علاقوں میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد وسط ایشیائی خطے تک تجارت کے زمینی روٹ تیار کرنا بھی ہے۔ تاہم افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے ابھی تک اس اہم تجارتی روٹ کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔
آسٹریلوی شہر میلبورن سے تعلق رکھنے والے سیاسی خطرات کے تجزیہ کار ہنری سٹورلے کے مطابق افغانستان میں دہشت گردی اور بدامنی کی وجہ سے پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک میں چین کے اقتصادی مفادات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان کے مطابق چین کی کوشش ہو گی کہ یہ سب معاملات پرامن طریقے سے طے پا جائیں اور وہ اپنے ان مفادات کے حصول کی خاطر افغانستان میں طاقت کے استعمال والی امریکی غلطی نہیں دہرائے گا۔
ع ب / ع ت (اے پی)
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔