طالبان کا فراہ پر حملہ، ’درجنوں سکیورٹی اہلکار ہلاک‘
15 مئی 2018
افغانستان کے مغربی صوبے فراہ میں طالبان اور حکومتی دستوں کے مابین شدید لڑائی جاری ہے۔ طالبان نے آج منگل 15 مئی کی صبح دو بجے کے قریب فراہ نامی صوبائی دارالحکومت پر مختلف اطراف سے حملہ کیا۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق طالبان عسکریت پسندوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے صوبائی دارالحکومت فراہ پر مختلف سمتوں سے دھاوا بولا اور وہ شہر کے متعدد علاقوں پر قابض ہیں۔ فراہ کی صوبائی کونسل کے ایک رُکن خیر محمد نور زئی نے ڈی پی اے کو بتایا کہ سینکڑوں عسکریت پسندوں نے تین مختلف اطراف سے شہر پر حملہ کیا۔
نور زئی کے مطابق حملہ آوروں نے شہر سے باہر قائم تین سے چار چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا جس کی وجہ سے کافی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں اور صوبائی پولیس کے نائب سربراہ سمیت کم از کم 10 افراد زخمی ہیں۔
صوبائی کونسل کی ایک اور رُکن جمیلہ امینی کے مطابق جانی نقصان کا درست اندازہ ابھی تک نہیں ہو سکا کیونکہ لڑائی ابھی تک جاری ہے۔
حکام کے مطابق اس دوران سینکڑوں خاندان گھر بار چھوڑ کر وہاں سے نکل گئے ہیں۔ صوبائی کونسل کے ارکان کے مطابق طالبان عسکریت پسندوں نے فراہ کے مضافات میں کم از کم تین دیہات پر قبضہ کر لیا اور پھر مختلف چیک پوائنٹس کو آگ لگا دی۔
افغان وزارت دفاع کے ایک ترجمان محمد ردمانش نے ڈی پی اے کو بتایا کہ اضافی سکیورٹی فورسز کو وہاں بھیج دیا گیا ہے تاکہ اُن علاقوں کو واپس حاصل کیا جا سکے جہاں طالبان قبضہ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان ایلیٹ فورس کے اہلکار وہاں پہنچ چکے ہیں۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کا کہنا ہے کہ پولیس اسپیشل فورسز کے اہلکاروں کو بھی شہر میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس دوران افغان فضائیہ کے طیارے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
دوسری طرف طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئیٹر پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں طالبان حملہ آوروں کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس دوران فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے شہر پر مختلف اطراف سے حملہ کیا اور کئی سکیورٹی چیک پوسٹوں کو تباہ کر دیا۔
ایرانی سرحد کے قریب واقع صوبہ فراہ کی سرحد ہیلمند صوبے سے ملتی ہے جہاں کئی اضلاع میں طالبان عسکریت پسندوں کا قبضہ ہے۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.