طالبان کا پشاور میں اسکول پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد ایک سو اکتالیس
16 دسمبر 2014شمال مغربی پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ہولناک دہشت گردی کے اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں مرد اور خواتین اساتذہ کے علاوہ 132 بچے بھی شامل ہیں۔ جاں بحق ہونے والے زیادہ تر بچوں کی عمریں نو اور سولہ سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اسکول پر حملہ کرنے والے تمام چھ دہشت گردوں کے مارے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ متاثرہ اسکول میں پاکستانی فوج کے جوان منگل کی شام تک اپنا ریسکیو آپریشن جاری رکھے ہوئے تھے۔ تازہ ترین اطالاعات کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد 141 اور زخمیوں کی تعداد 121 ہے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے اس المناک واقعے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اپنی معمول کی سرگرمیاں معطل کر کے پشاور پہنچ گئے تھے۔ سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے حکومتی پالیسی کی تشکیل کے لیے ملک کی تمام جماعتوں کا ایک مشاورتی اجلاس کل بدھ کو پشاور میں طلب کر لیا گیا ہے۔
منگل کی صبح دہشت گرد ایک گاڑی میں سوار ہو کر آرمی کے زیر انتظام چلائے جانے والے اس سکول کے باہر پہنچے اور اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا۔ دہشت گردوں نے اسکول میں داخل ہو کر سینکڑوں بچوں اور اساتذہ کو یرغمال بنا لیا۔ پاک فوج کے کمانڈوز نے موقع پر پہنچ کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا اور بہت سے بچوں کو محفوظ باہر نکالنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔
منگل کی شام تک پشاور کے ہسپتالوں اور جائے حادثہ کے باہر قیامت کا سا سماں تھا، مرنے والوں کے لواحقین کے بین اور دکھ درد کے رقت انگیز مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق احمد غنی کا کہنا ہے کہ یہ حملہ دہشت گردی کے خلاف جاری فوجی آپریشن کا رد عمل بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ امریکا اور برطانیہ سمیت کئی ملکوں نے بھی اس افسوسناک واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے بھی دہشت گردی کی اس خوفناک واردات کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پہلی ترجیح بنایا جائے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے دہشت گردی کے خلاف تمام جماعتوں کے متحد ہونے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’آخری اطلاعات کے مطابق دہشت گرد سکول کے احاطے میں موجود تھے۔ فوج اور پولیس نے اسکول کو گھیرے میں لے کر آپریشن شروع کر دیا جبکہ سکیورٹی اہلکاروں نے ورسک روڈ بند کر کے علاقے کا بھی محاصرہ کر لیا۔ پولیس کے مطابق چھ سے لے کر سات تک دہشت گرد دیوار پھلانگ کر اسکول میں داخل ہوئے۔
فوج کے ترجمان ادارے کے مطابق محصور بچوں اور عملے کی بڑی تعداد کو اسکول کے پچھلے راستے سے نکال لیا گیا ہے جبکہ کور کمانڈر پشاور نے اسکول کا فضائی جائزہ لیا۔ مذکورہ اسکول پشاور کے انتہائی حساس علاقے میں واقع ہے تاہم دہشت گرد سکیورٹی فورسزکی وردیاں پہن کر آئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شوکت علی یوسف زئی کا کہنا تھا کہ یہ حملہ آپریشن ضرب عضب کا رد عمل ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب ہسپتال منتقل کیے گئے زخمیوں اور ہلاک شدگان کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور ان کے لواحقین کے درست انداز سے علاج کا مطالبہ کیا گیا۔
سینئر صحافی محمد فضل الرحمان کا کہنا تھا، ’’اتنی بڑی تعداد میں کم سن بچوں کو قتل کرنا کسی انسان کا کام نہیں۔ یہ پاکستان اور بالخصوص پختونوں کے خلاف ایک منظم سازش ہے، جو انہیں دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ تنظیم کے مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے چھ حملہ آور اسکول میں داخل ہوئے اور یہ کارروائی 'شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کا جواب‘ ہے۔